پی ایچ ڈی مقالے بعنوان "سرائیکی لوک قصے اتے چولستانی قصے دے اثرات” کا مطالعاتی جائزہ
تحقیق و تحریر:ارشاد احمد خان ڈاھر
پہلی قسط
سرائیکی وسیب سمیت پورے پاکستان میں میٹھی زبان کا اعزاز سرائیکی زبان کو حاصل ہے۔ جس طرح آم کو پھلوں کا بادشاہ اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ مٹھاس میں اپنی مثال آپ ہے، اسی طرح سرائیکی زبان میں محبت و احترام جیسی خوبصورت روحانی مٹھاس آم، کھجور، شہد، گڑ کی رس بھری ہوئی ہے۔ سات دریاؤں کی سرزمین سرسبز خطہ، روحانیت، معدنیات اور زراعت کی دولت سے مالا مال ہے۔

ماں اور مادری زبان سے بےپناہ محبت اور عقیدت فطری تقاضا ہے۔ ریسرچ میتھڈالوجی سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ماں بولی میں تعلیم و تربیت، علم و ادب کے فروغ سے شرح خواندگی میں اضافہ ممکن ہے۔ ماں کی گود ہی انسانی شعور کی بیداری کی پہلی یونیورسٹی ہوتی ہے۔ تحقیق و تنقید کی بدولت ہمیشہ قومی تعلیمی ادارے اپنا نام روشن کرتے ہیں۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پاکستان کی تعمیر و طرز اور تعلیمی ماحول کو قاہرہ، مصر کی یونیورسٹی الازہر کے طرز پر ارتقائی اعتبار سے بنایا گیا تھا۔ تعلیم و تربیت ہی قوموں کی ترقی و خوشحالی کا راز ہے۔ مادری زبانوں میں علم کا حصول درحقیقت انسانی آرٹ اینڈ کلچر، تہذیب و تمدن، تاریخ، تصوف، رسوم و رواج کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ دنیا کی ہر زبان اپنی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔

قدیم وادی ہاکڑہ تہذیب و تمدن، روہی چولستان کے ساتھ وادی سندھ میں سرائیکی زبان صدیوں سے اپنا ادبی، سماجی، ثقافتی، شعوری، تاریخی، تنقیدی و تحقیقی سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ مادری زبان ہی دراصل انسانی عروج کا تاج ہے۔ ہر آدمی اپنا ما فی الضمیر آسان اور مؤثر ترین انداز میں صرف ماں بولی میں بیان کرسکتا ہے۔

قصہ ہر زبان کے شاعری و نثری ادب کا نوبل قیمتی اثاثہ ہے۔ مادری زبان میں ابلاغ ایک فطری اور آسان ترین عمل ہے۔ رب العزت خود قصہ گو ہیں۔ قرآن مجید کی ایک سورہ "القصص” درحقیقت ادب کی صنف قصہ کو عروج بام بخشنے کا مقصود ہے۔ اس میں بے شمار و بے پناہ موضوعات کا خزانہ موجود ہے۔ قصہ لوگوں کے لیے وصیت، رشد و ہدایت کے ساتھ خوبصورت تفریح کا باعث بھی ہے۔

سرائیکی لوک قصے نے اپنے وسیب کو علم، دانش و تربیت کا بہترین نصاب مہیا کیا ہے۔ اگر دنیا سے کتابیں ختم ہوجائیں تو قصے زبانی طور پر زندہ رہیں گے۔ وہ نسل در نسل، سینہ بہ سینہ، پیڑھی در پیڑھی اپنی تخلیق ادب کو دنیا تک پہنچاتے رہیں گے اور پھر کتابیں اور لائبریریاں وجود میں آئیں گی۔ لکھی ہوئی تحریر ہمیشہ اپنا لوہا منواتی ہے۔

شاید دنیا کے پہلے ادیب نے کونی فارم رسم الخط میں کوئی قصہ ہی لکھا ہوگا، جو دنیا کی 6500 سال پرانی میسوپوٹامیا، سومیری تہذیب و تمدن کی نشاندہی کرتا ہے۔ مصری اہرام اور سوڈانی اہرام دریائے نیل پر قدیم تاریخی آباد شہروں کی گواہی ہیں۔ اردن کے پرانے کھنڈرات اور محلات کا ثبوت ہزاروں سالوں کی انسانی منظم معاشرے کا قدیم حوالہ ہے۔

آثار قدیمہ کی تحقیق سے معلوم ہورہا ہے کہ وادی سندھ تہذیب و تمدن کی ماں 6000 سال پرانی وادی ہاکڑہ تہذیب و تمدن، موجودہ روہی چولستان ہے۔ دریائے ہاکڑہ، جسے دریائے گھاگھرا، گھگھر، گھارا، یا دریائے سرسوتی بھی کہا جاتا ہے، کا ذکر دنیا کے قدیم ترین ویدک ادب میں موجود ہے۔

تقریباً ساڑھے چھ سو سال پرانی قصہ گوئی کی تاریخ کے مطابق، جب دریائے ہاکڑہ نے اوچ شریف میں سیلاب کی صورت میں ورلڈ ہیریٹیج مقبرے بی بی جند وڈی، حلیم و نوریا کے آدھے حصے کو نقصان پہنچایا، تو حکم ربی اور کرامت ولی کامل حضرت شیر شاہ سید جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاریؒ سے دریائے ہاکڑہ واپس چلا گیا اور شہر مزید تباہی سے محفوظ رہا۔

"سرائیکی لوک قصے اتے چولستانی قصے دے اثرات” کے مقالہ نگار ڈاکٹر محمد الطاف خان ڈاھر ہیں، جبکہ نگران مقالہ پروفیسر ڈاکٹر جاوید حسان چانڈیو، سابق چیئرمین شعبہ سرائیکی و ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ لینگویجز، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور (پاکستان) ہیں۔ شعبہ سرائیکی نے 25 ستمبر 2024ء بروز بدھ اوپن ڈیفنس میں کامیابی پر پی ایچ ڈی ڈگری کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔

بیرونی ممتحن پروفیسر ڈاکٹر مقبول حسن گیلانی، سابق پرنسپل گورنمنٹ صادق ایجرٹن گریجویٹ کالج بہاولپور اور یونیورسٹی آف ایجوکیشن، ملتان کیمپس تھے۔ ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر نے ایم اے سرائیکی میں تھیسز بعنوان "احمدپور شرقیہ دی سرائیکی ادبی گوجھی” پروفیسر ڈاکٹر جاوید حسان چانڈیو کی زیر نگرانی 2007ء تا 2009ء مکمل کیا تھا۔

محقق ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر جلالوی نے اپنے پی ایچ ڈی مقالے کا انتساب اپنے روحانی مرشد کامل حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاریؒ کے نام کیا ہے۔ والدین سمیت دنیا کے تمام قصہ گوؤں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔

قصہ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب واقعہ، حادثہ، کہانی، کتھا، یا داستان ہے۔ سرائیکی وسیب کا خوبصورت جغرافیہ قدرتی حسن سے مزین ہے۔ دھرتی کے باکمال حصوں میں میدانی، پہاڑی، تھلوچڑ اور روہی چولستان واضح ہیں۔ سرائیکی علاقہ اپنے منفرد تہذیب و تمدن، ثقافتی و ادبی ورثے کا مالک ہے۔ یہاں کے قدرتی وسائل میں معدنیات، دستکاریاں اور مال مویشی ملکی معاشی استحکام اور خوشحالی میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔

اس سال سرائیکی زبان و ادب کو انٹرنیشنل لینگویجز میں شامل کیا گیا ہے۔ موجودہ عہد کے آثار قدیمہ کے ماہرین کی تحقیق میں ملنے والے صحرائے چولستان کے مختلف مقامات سے شواہد کے مطابق، وادی ہاکڑہ تہذیب و تمدن (روہی چولستان، گنویری والا، پتن منارہ، قلعہ ڈیراور وغیرہ) کو وادی سندھ تہذیب و تمدن (ہڑپہ و موہنجوداڑو) کی ماں مانا گیا ہے۔

ہمیشہ ماں اپنی اولاد پر اپنی تہذیب و تمدن اور تربیتی اثرات مرتب کرتی ہے۔ سرائیکی زبان میں قصہ گوئی ایک قدیم فن ہے۔ شاعری اور نثری ادب میں سرائیکی قصہ اپنی پوری روشن دلیل کے ساتھ نمایاں ہے۔
جاری ہے۔۔۔

Shares: