پی ایچ ڈی مقالے بعنوان”سرائیکی لوک قصیں اتے چولستانی قصیں دے اثرات "کا مطالعاتی جائزہ
پی ایچ ڈی مقالے بعنوان”سرائیکی لوک قصیں اتے چولستانی قصیں دے اثرات "کا مطالعاتی جائزہ
تحقیق و تحریر:ارشاد احمد خان ڈاھر
دوسری وآخری قسط۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر جلالوی نے شاید اس وجہ سے اپنے پی ایچ ڈی(PhD) مقالے بعنوان”سرائیکی لوک قصیں اتے چولستانی قصیں دے اثرات ” منتخب کیا۔ چولستانی قصولیوں کے قصوں نے پورے سرائیکی وسیب کے دوسرے خطوں دمان و تھل کے قصولیوں کے قصوں پر اپنے اثرات مرتب کیے ہیں۔لوک قصہ دراصل انسانی عروج و زوال کی تاریخی دستاویز ہے۔حق سچ، شر و خیر میں فیصلہ کرنے کا عملی مظہر ہے۔نصیحت و وصیت کا عملی نمونہ ہے۔قصہ گوئی کا خوبصورت فن اس دن سے شروع ہے، جب سے قوت گوئی کا آغاز ہوا۔لوک قصہ میں امن و رواداری کا پیغام ہے۔لوک دانش و تربیت کا بہترین نصاب ہے۔آرٹ کا شاندار اظہار ہے۔سرائیکی لوک قصہ سرائیکی وسیب کے قصولیوں کی حکمت و ست کا نچوڑ ہے۔مقالے کے نتارا سمیت سات ابواب ہیں۔
پہلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پی ایچ ڈی مقالے بعنوان "سرائیکی لوک قصے اتے چولستانی قصے دے اثرات” کا مطالعاتی جائزہ
پہلا باب "سرائیکی لوک قصے دی لوڑ تے ایندے سماجی اثرات "جس میں سرائیکی قصے کا آغاز، قصوں کی اقسام، قصے و کہانی کے بارے ماہرین کی رائے کے ساتھ قصے کے سماجی اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔لوک قصے میں انسانی شعور، ماضی، حال اور مستقبل کی روشن ضمانت ہے۔مقالے کا دوسرا باب "روہی چولستان دی تاریخ” ہے۔جس میں قدیم چولستانی مورخین کی آراء میں صحراء چولستان کے سیاق وسباق کو پڑکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔تیسرے باب ” چولستانی لوک کہانیاں دے ہر قصے دا فکری ویورا ” ہے۔احمد غزالی/ نسیم اختر کے ہر قصے کا فکری تجزیہ کیا گیا ہے۔چوتھے باب ” قلعہ ڈیراور وچ وسدے لوکاں دے قصے ” شعبہ سرائیکی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور،محقق محمد الطاف خان ڈاھر (تھیسز سپروائزر پروفیسر ڈاکٹر ریاض حسین خان سنڈھر)کے ایم فل تھیسز میں موجود ہر قصے کا بھی فکری تجزیہ شامل ہے۔
پانچویں باب”لوک قصے تحصیل لیاقت پور دی حدود وچ موجود زبانی قصیں دی گول” کلید عمر محقق ایم فل تھیسز (نگران مقالہ پروفیسر ڈاکٹر محمد ممتاز خان بلوچ چیئرمین شعبہ سرائیکی) شعبہ سرائیکی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ہر قصولی کے قصے کا تجزیاتی فکری مطالعہ شامل ہے۔پی ایچ ڈی مقالے کا اہم باب چھٹا ہے۔جس کا عنوان ” سرائیکی لوک قصیں اتے چولستانی قصیں دے اثرات ” ہے۔ چولستانی قصولیوں کے قصوں کے اثرات کو دوسرے سرائیکی وسیب میدانی، تھل و دمان کے قصولیوں کے قصوں پر اثرات کو ان پہلوؤں سے تجزیاتی و تقابلی تحقیق سے ثابت کیا گیا۔قصے کےعنوانات کے حوالے سے، قصے کے آغاز سے،مذہب پرستی،روحانیت اور عقیدت پرستی کے حوالے سے، ہیرو،شاہی کرداروں، مافوق الفطرت عناصر کے حوالے سے،گھریلو اور مقامی وسیبی کرداروں کے حوالے سے، فانا اور فلورا، آکھانیں/ضرب المثل،دعائیں،ثقافت، محاوریں اور ٹھیٹھ زبان کے استعمال کے حوالے سے شخصیات، شئیں،جگہوں کے حوالے سے،متن و فکری سانجھ کے حوالے سے سرائیکی چولستانی قصوں کے اثرات کا سرائیکی وسیب کے دوسرے خطوں کے قصولیوں کے قصوں پر لیا گیا ہے۔
آج بھی جدید عہد میں چولستان جیپ ریلی،چولستان یونیورسٹی کے اثرات تھل جیپ ریلی و تھل یونیورسٹی پر واضح ہیں۔روہی چینل،روہی آٹوز، روہی ٹرانسپورٹ سروس اب سرائیکی وسیب سمیت پورے پاکستان میں نظر آرہی ہے۔چولستانی فنکار ہر جگہ اپنے اثرات مرتب کررہےہیں۔ویندے وگدے، ویندے وگدے،واہ واہ ہے اللہ بادشاہ ہے کاغذاں دی بیڑی ہے مکوڑا ملاح ہے۔خلقت پئی چڑھدی ہے ساڈی صلاح ہے۔ہک ہا بادشاہ،وہ تاں صرف زمینی ٹوٹے دا بادشاہ ہا، اصل بادشاہ تاں صرف آپ اللہ اے۔۔متنی ٹوٹے جو ہمیں چولستانی لوک قصوں میں بار بار ملتے ہیں۔یہی ایک جیسا ٹیکسٹ ہمیں دوسرے سرائیکی قصوں پر بطور اثرات نظر آتے ہیں۔لوک قصے کی جدید ٹیکنالوجی ہمیں فلم،تھیٹر، ڈرامے،فنکشنز میلوں اور مشاعروں میں نظر آرہی ہے۔
مقالہ نگار ڈاکٹر محمد الطاف خان ڈاھر نے آخر میں اپنے تھیسز کی ریکمنڈیشنز/کمنٹس/سفارشات جو مرتب کیں ہیں،آنے والے نئے ریسرچرز کے لیے بہترین معاون ثابت ہوگیں۔میرے نزدیک یہی مقالے کا محاکمہ/نتائج یعنی حاصل مقاصد بھی ہیں۔سفارشات Comments/Recommendations قصہ بنیادی طور پر انسانیت کی اصلاح و تربیت کے لیے ایک مضبوط اور سایہ دار درخت کی طرح نسلاں کے لیے پھل بھی ہے چھاؤں بھی ہے،جس طرح تپتے صحراء میں جال کا گھاٹا درخت پیلھوں پھل اور گھاٹی چھاؤں دونوں کا باعث نعمت خداوندی ہے،جس کی چھپر چھاؤں کے نیچے ضعیف نحیف بڈھڑے قصولی اپنا ما فی الضمیر قصے کی شکل میں بیان کرتے ہیں ۔ان کی اور ان کے پاس قصوں کے خزانے کی بقاء، حکمت ودانش کی حفاظت بہت ضروری ہے۔
چولستانی قصےگو اس سے پہلے جو اپنے قیمتی ادبی خزانے کے ساتھ دنیا سے پردہ کرجائیں،فوری جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ان کی اپنی آواز وچ قصوں کو ریکارڈ کرکے محفوظ کرلیا جائے ۔چولستانی قصولیوں کی طرح تھل،دمان سمیت پورے سرائیکی وسیب کے قصولیاں کو مراعات یافتہ بنایا جائے۔ان کی معاشی ترقی و خوشحالی کے لئے فوری انفراسٹرکچر و مالی امداد کااعلان کیا جائے تاکہ یہ لوگ اقتصادی آسودگی کے ساتھ سرائیکی قصوں کو ہم تک پہنچا سکیں۔ہر چولستانی قصولی دراصل ہک آرٹسٹ ہے، اس لیے ان کے سماجی مقام و مرتبہ کے لیے قصولیوں کے درمیان مقابلے کرائے جائیں ۔ایوارڈز،میڈلز وظائف مقرر کیے جائیں۔چولستانی قصےگو اور ان کی نئی نسل کے لئے اعلی تعلیم وتربیت اور صحت کے ماڈل ادارے تعمیر کیے جائیں ۔پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں اور سرکاری نوکریوں میں چولستانی قصولیاں کے بچوں کوٹہ مقرر کیا جائے۔مال مویشی و جڑی بوٹیاں کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں ۔
روہی چولستان کا خطہ وادی ہاکڑہ چھ ہزار سال قدیم تہذیب وتمدن کا آمین ہے۔قلعہ ڈیراور،پتن منارہ،گنویری والا کے آس پاس قصولیوں کی فلاح وبہبود کے لیے کلچرل اینڈ آرکیالوجی سوسائٹی ریسرچ سنٹرز تعمیر ہونے چاہئیں،تاکہ مقامی لوک ادب،وذڈم، حکمت و دانش کو فروغ دیا جاسکے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، چینلز ، آگاہی سمینار میں آن ائیر قصولیوں کے قصے چلائے جائیں۔ہفتہ وار پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا جائے ۔ تاکہ نئی نسل کو اپنےادبی ورثے کے ساتھ شناخت ہوسکے۔چولستان جیپ ریلی و تھل جیپ ریلی کے موقع پر چولستانی و تھلوچڑ قصہ گو کے فن کی حوصلہ افزائی کے لئے سرکاری سطح پر انتظامات کئے جائیں۔ان افراد کی حوصلہ افزائی کیلئے انفرادی وظائف مقرر ہونے چاہئیں تاکہ چولستانی قصہ گو اور مقامی دستکاری کی صنعت کی بہتری کیلئے مالی امداد ہوسکے۔
قومی و صوبائی سطح کی نصاب سازی میں چولستانی قصولیوں کے قصوں کو شامل کیا جائے۔سرائیکی چولستانی قصولیوں سمیت تھل،دمان پورے وسیب کے قصولیوں کے حقوق کے تحفظ کی آگاہی کے لیے نیشنل و انٹرنیشنل سطح سہ ماہی و سالانہ سمینار،اجلاس،مشاعرے وغیرہ کا انعقاد ہونا چاہیے۔روہی چولستان کے ادیب،دانشور،شاعر قصولیوں کے قصوں کے اثرات کی بدولت چولستان یونیورسٹی و چولستان جیپ ریلی سے تھل جیپ ریلی،تھل یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا ہے،ہر یونیورسٹی میں چولستانیات شعبے کھولیں جائیں۔ روہی چینل، روہی آٹوز، روہی بس سروس پورے سرائیکی خطہ سمیت پورے پاکستان میں نظر آنا خوش آئند ہے۔فنون لطیفہ کے شعبوں میں روہی چولستان آرٹ بھی شامل کیا جائے۔
چولستانی سرائیکی قصولیوں کے قصوں نے جو اثرات سرائیکی لوک قصہ گو کے قصوں پر مرتب کیے ہیں، وہ پہلو یہ ہیں۔عنوانات کے اعتبار سے،قصے کے آغاز کے حوالے سے، مذہب پرستی،روحانیت اور عقیدت پرستی کے اعتبار سے،ہیرو، شاہی کرداروں اور مافوق الفطرت عناصر کے حوالے سے، گھریلو اور مقامی وسیبی کرداروں کے حوالے سے ، فانا، فلورا کے حوالے سے،آکھانیں،دعائیں،ثقافت،محاوریں اور ٹھیٹھ زبان کے استعمال کے حوالے سےشخصیات،جگہوں،شئیں کے اعتبار سے،متن اور فکری سانجھ کے حوالے سے اثرات پر آنے والے نئے ریسرچرز ایک ایک پہلو پر ایم فل، پی ایچ ڈی مقالے لکھیں گے۔
چولستانی قصہ گو میدا رام،سمارا ، مجید مچلا، مہر غلام رسول،احمد غزالی کے قصوں کے اثرات طاہر غنی (تھل)، ملک عبداللہ عرفان (میدانی)، ملک آصف سیال (دمان) کے قصوں پر واضح ہیں۔سرائیکی مہان صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کا اٹھارہ سال روہی چولستان میں گزارنا،انہاں کے آفاقی کلام میں روہی،چولستان کا قصہ موجود ہے۔کلام میں موجود چولستانی بودوباش کو عام کرنے کے لیے عالمی سطح پر ریسرچ انسٹیٹیوٹ بنائیں جائیں۔
ختم شد