اچھا سامع — ریاض علی خٹک

0
47

انڈیز پہاڑوں میں بسے پیرو کے شامان اپنے علاج کیلئے بہت مشہور تھے. مسئلہ یہ تھا کہ وہ شامان کہتے علاج کیلئے تمہیں اوپر پہاڑوں پر آنا ہوگا. مریض کو خچروں پر یا کندھوں پر اٹھا کر اوپر پہاڑوں پر جب لے جایا جاتا تو وہ کہتے اسے اب چھوڑ جاو. وہ قدرتی جڑی بوٹیوں سے اسکا علاج کرتے. اکثریت کو شفا ملتی اور ان شا مانوں کا دور دور تک شہرہ تھا. آج بھی ان کی نسل دستیاب ہے.

آج جب تحقیق ہوتی ہے تو کئی باتیں سمجھ آتی ہیں. مریض کا ماحول بدل جاتا قدرتی پرفضا ماحول میں فطرت کے ساتھ رہتا فطرتی چیزیں استعمال کرتا اپنے شامان کی تسلی سنتا یہ مریض اصل میں اپنی ایک زندگی سے کٹ کر ایک نئی زندگی میں داخل ہوجاتا تھا. مایوسی کی جگہ اُمید دنیا کی بھاگ دوڑ کی بجائے فطرت کا سکون اس کے آس پاس ہوتا. اور زندگی پھر انگڑائی لے کر جینے کیلئے بیدار ہو جاتی.

ہمارے ہاں یہ شامان نہیں ہوتے. لیکن مریض بہت ہیں. ان کے دل و دماغ پر اندیشے خوف مایوسیاں بے بسی اور بے اعتمادی کے اندھیرے وہ پہاڑ بن چکے ہیں جن کے نیچے اکثریت پس چکی ہے. یہ دوسروں سے ڈرتے ہیں. کیونکہ ہماری اکثریت بہت ججمنٹل ہوگئی ہے. یہاں ظالم سے زیادہ مظلوم کو الزام دیا جاتا ہے. اس ڈر سے کوئی مظلوم بولتا بھی نہیں کہ اپنے اوپر ہوئے ظلم کا مجرم کون بننا چاہے گا.؟

ایک ایسا انسان جو دوسرے کو صرف سن سکتا ہو. بنا کوئی فیصلہ سنائے بنا کوئی عدالت سجائے یہ سننے والا آج کا وہی شامان بن سکتا ہے جو دوسروں کی شفا کا سبب بن جاتے تھے. کیونکہ ایک مریض کو اچھا سامع مل جائے تو اُمید اسے خود ہی اس اندھیرے سے کھینچ کر روشنی کے پہاڑوں کی طرف لے آتی ہے.

Leave a reply