اچھے دنوں کی اُمید!!! — ریاض علی خٹک

زندگی کا موسم ایک سا نہیں رہتا اس میں نشیب و فراز آتے ہیں. جب وقت موافق نہ ہو تو تنہا ایک معصوم سا پودا بھی اسے بھانپ لیتا ہے. وہ ہوا میں قدرت کی مہربان نمی جب کم دیکھتا ہے سورج کو دہکتے اور آسمان کو بادلوں سے صاف دیکھتا ہے. آس پاس خشک ہوتے میدان اور مرجھائے چہروں والے گھاس کی تلاش میں چرتے مویشی دیکھتا ہے تو یہ بھی پریشان ہو جاتا ہے.

لیکن پودا روتا نہیں ہے. کیونکہ اوپر اللہ اور نیچے اس تنہا کو سننے والا کوئی دستیاب نہیں ہوتا. وہ اپنے پتوں پر بنے چھوٹے چھوٹے سوراخ یعنی stomata بند کر لیتا ہے جیسے طوفان کے آثار دیکھ کر ہم اپنی کھڑکیاں دروازے مضبوطی سے بند کرتے ہیں. وہ اپنی جمع توانائی اپنی جڑوں پر لگا کر ان کو زمین کی مہرباں گود میں پھیلانے لگتا ہے. وہ اپنا اوسموس سسٹم ری ایڈجسٹ کرتا ہے.

پودا اپنی بقا کی خاموش جنگ لڑنے لگتا ہے. اس کے مرجھائے پتے اُس انتظار پر البتہ گواہ ہوتے ہیں جو آسمان کو دیکھ رہے ہوتے ہیں. یہاں تک کے وقت دوبارہ مہربان ہو جائے آسمان پر کالی گھٹائیں چھا جائیں اور منظر بدل جائے. انسان بھی وقت کے اس نشیب و فراز میں اسی طرح پریشان ہو جاتے ہیں. کچھ مرجھائے ہوئے چہروں کے پیچھے بقا کی یہی جنگ چل رہی ہوتی ہے.

انسانوں کو البتہ زبان ملی ہوئی ہے. وہ احساس ملا ہے جو دوسرے کی پریشانی نہ صرف محسوس کر سکتا ہے بلکہ اسے بانٹ بھی سکتا ہے. ہم ایک دوسرے کو اچھے دنوں کی اُمید دے سکتے ہیں. ہم کسی کی خزاں میں اپنی بہار کے کچھ رنگ دے کر اس انتظار کو آسان بنا سکتے ہیں. یہی انسانیت کا شرف ہے جو اسے جانوروں اور پودوں سے ممتاز کرتا ہے.

Comments are closed.