حکومت کی جانب سے امریکی ڈالر کی بلیک مارکیٹ کے خلاف کریک ڈاؤن نے پاکستانی روپے کو وقتی استحکام ضرور دیا، تاہم تاجروں اور بینکرز کا کہنا ہے کہ غیر قانونی ڈالر کی خرید و فروخت اب واٹس ایپ اور گھریلو ترسیل جیسے جدید ذرائع میں منتقل ہو چکی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق 22 جولائی کے بعد سے متعدد غیر لائسنس یافتہ کرنسی ایکسچینج دکانیں بند ہو چکی ہیں۔ یہ اقدام اُس وقت شروع ہوا جب فوجی خفیہ ادارے نے کرنسی مارکیٹ کے نمائندوں کو ڈالر کی تیزی سے بڑھتی قیمت پر وضاحت کے لیے طلب کیا، جس کے بعد ایف آئی اے نے مالی جرائم اور اسمگلنگ کے خلاف چھاپے مارے۔اس کارروائی کے نتیجے میں پاکستانی روپے کی قدر میں بہتری دیکھی گئی، اور 19 جولائی کو اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 288.6 روپے سے کم ہو کر حالیہ دنوں میں تقریباً 286 روپے فی ڈالر تک پہنچ گئی۔
تاہم معاشی ماہرین اور کرنسی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ یہ بہتری وقتی ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ غیر رسمی کرنسی تجارت اب بھی جاری ہے، بس اس کا طریقہ کار بدل گیا ہے۔پشاور کے معروف بلیک مارکیٹ علاقے یادگار چوک کی کئی دکانیں بند ہیں، مگر بعض تاجر چھوٹے غیر واضح بوتھز میں اب بھی کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک تاجر احمد نے بتایا، تجارت ختم نہیں ہوئی، صرف پلیٹ فارم بدل گیا ہے، اب سارا کام واٹس ایپ پر ہوتا ہے اور ڈالر گھر پر پہنچا دیے جاتے ہیں۔
اسی طرح ایک اور تاجر گل نے بتایا کہ بڑے کھلاڑی محفوظ مقامات پر منتقل ہو چکے ہیں اور اپنا نیٹ ورک جاری رکھے ہوئے ہیں۔کراچی میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے منیجر حسن نے کہا کہ پیچیدہ دستاویزی تقاضوں کی وجہ سے وہ بھی اب غیر رسمی فارن ایکسچینج چیٹس پر انحصار کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق، "یہاں ہر کوئی براہ راست خریدار یا بیچنے والا ہوتا ہے، نہ کوئی کمیشن، نہ کوئی ایجنٹ، ادائیگی نقد، بینک ٹرانسفر یا کبھی کرپٹو کے ذریعے ہو جاتی ہے۔”
مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں پر ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر نیچے رکھنے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، جس سے بلیک مارکیٹ مزید فعال ہو سکتی ہے۔ماہرین نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ مستقل اصلاحات کے بغیر یہ عارضی استحکام دیرپا ثابت نہیں ہوگا۔
برطانیہ کا فلسطینی ریاست کو مشروط تسلیم کرنے کا اعلان
مون سون بارشوں کے دوران 288 افراد جاں بحق، 1567 مکانات تباہ