یوں تیری رہگزر سے دیوانہ وار گزرے
کاندھے پہ اپنے رکھ کے اپنا مزار گزرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مینا کماری ناز
آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برصغیر کی ایک بے مثال و باکمال اداکارہ اور شاعرہ مینا کماری یکم اگست 1933 میں پیدا ہوئیں ۔ان کا اصل نام ماہ جبین، فلمی نام مینا کماری اور تخلص ناز تھا۔ ان کی والدہ کا نام پربھاوتی تھا وہ ایک عیسائی بنگالی خاتون تھیں ۔ مینا کماری کے والد صاحب کا نام علی بخش تھا۔ وہ ایک تھیٹر آرٹسٹ، نغمہ نگار اور موسیقار تھے۔ پربھاوتی ایک رقاصہ تھی جس نے ماسٹر علی بخش سے شادی کی اور اسلام قبول کر کے مسلمان ہو گئی جس کا اسلامی نام اقبال بیگم رکھا گیا۔ مینا کماری اقبال بیگم اور ماسٹر علی بخش کی بیٹی تھیں ۔ مینا کماری نے فلموں میں لازوال کردار ادا کیا اور خوب صورت شاعری کی انہوں نے 14 فروری 1954 میں کمال امروہوی سے شادی کی ۔ مینا کماری کو اولاد نہیں ہوئی۔ 31 مارچ 1972 میں ان کی وفات ہوئی۔
مینا کماری ناز کی خوب صورت شاعری سے انتخاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیری عنایتوں کا انداز جداگانہ
کبھی رو پڑے مقدر ، کبھی ہنس پڑا زمانہ
تیری آواز میں تارے سے کیوں چمکنے لگے
کس کی آنکھوں کے ترنم کو چُرا لائی ہے
کس کی آغوش کی ٹھنڈک پہ ڈاکہ ڈالا ہے
کس کی بانہوں سے تو شبنم کو اُٹھا لائی ہے
ہاں کوئی اور ہو گا تو نے جو دیکھا ہو گا
ہم نہیں آگ سے بچ بچ کے گزرنے والے
نہ انتظار ، نہ آہٹ ، نہ تمنا ، نہ امید
زندگی ہے کہ یوں بے حس ہوئی جاتی ہے
سنبھلتا نہیں دل کسی بھی طرح
محبت کی ہائے تباہ کاریاں
شمع ہوں ، پھول ہوں یا ریت پہ قدموں کا نشاں
آپ کو حق ہے مجھے جو بھی چاہے کہہ لیں
آبلہ پا کوئی اس دشت میں آیا ہوگا
ورنہ آندھی میں دیا کس نے جلایا ہوگا
آغاز تو ہوتا ہے انجام نہیں ہوتا
جب میری کہانی میں وہ نام نہیں ہوتا
عیادت ہوتی جاتی ہے عبادت ہوتی جاتی ہے
مرے مرنے کی دیکھو سب کو عادت ہوتی جاتی ہے
کہیں کہیں کوئی تارہ کہیں کہیں جگنو
جو میری رات تھی وہ آپ کا سویرا ہے
یوں تیری رہ گزر سے دیوانہ وار گزرے
کاندھے پہ اپنے رکھ کے اپنا مزار گزرے
بیٹھے ہیں راستے میں دل کا کھنڈر سجا کر
شاید اسی طرف سے اک دن بہار گزرے
دار و رسن سے دل تک سب راستے ادھورے
جو ایک بار گزرے وہ بار بار گزرے
بہتی ہوئی یہ ندیا گھلتے ہوئے کنارے
کوئی تو پار اترے کوئی تو پار گزرے
مسجد کے زیر سایہ بیٹھے تو تھک تھکا کر
بولا ہر اک منارہ تجھ سے ہزار گزرے
قربان اس نظر پہ مریم کی سادگی بھی
سائے سے جس نظر کے سو کردگار گزرے
تو نے بھی ہم کو دیکھا ہم نے بھی تجھ کو دیکھا
تو دل ہی ہار گزرا ہم جان ہار گزرے
جب چاہا اقرار کیا ہے جب چاہا انکار کیا
دیکھو ہم نے خود ہی سے یہ کیسا انوکھا پیار کیا
ایسا انوکھا ایسا تیکھا جس کو کوئی سہہ نہ سکے
ہم سمجھے پتی پتی کو ہم نے ہی سرشار کیا
روپ انوکھے میرے ہیں اور روپ یہ تو نے دیکھے ہیں
میں نے چاہا کر بھی دکھایا یا جنگل گلزار کیا
درد تو ہوتا ہی رہتا ہے درد کے دن ہی پیارے ہیں
جیسے تیز چھری کو ہم نے رہ رہ کر پھر دھار کیا
کالے چہرے کالی خوشبو سب کو ہم نے دیکھا ہے
اپنی آنکھوں سے ان کو شرمندہ ہر اک بار کیا
روتے دل ہنستے چہروں کو کوئی بھی نہ دیکھ سکا
آنسو پی لینے کا وعدہ ہاں سب نے ہر بار کیا
کہنے جیسی بات نہیں ہے بات تو بالکل سادہ ہے
دل ہی پر قربان ہوئے اور دل ہی کو بیمار کیا
شیشے ٹوٹے یا دل ٹوٹے خشک لبوں پر موت لئے
جو کوئی بھی کر نہ سکا وہ ہم نے آخر کار کیا
نازؔ ترے زخمی ہاتھوں نے جو بھی کیا اچھا ہی کیا
تو نے سب کی مانگ سجائی ہر اک کا سنگار کیا
آغاز تو ہوتا ہے انجام نہیں ہوتا
جب میری کہانی میں وہ نام نہیں ہوتا
جب زلف کی کالک میں گھل جائے کوئی راہی
بدنام سہی لیکن گمنام نہیں ہوتا
ہنس ہنس کے جواں دل کے ہم کیوں نہ چنیں ٹکڑے
ہر شخص کی قسمت میں انعام نہیں ہوتا
دل توڑ دیا اس نے یہ کہہ کے نگاہوں سے
پتھر سے جو ٹکرائے وہ جام نہیں ہوتا
دن ڈوبے ہے یا ڈوبی بارات لیے کشتی
ساحل پہ مگر کوئی کہرام نہیں ہوتا
عیادت ہوتی جاتی ہے عبادت ہوتی جاتی ہے
میرے مرنے کی دیکھو سب کو عادت ہوتی جاتی ہے
نمی سی آنکھ میں اور ہونٹ بھی بھیگے ہوئے سے ہیں
یہ بھیگا پن ہی دیکھو مسکراہٹ ہوتی جاتی ہے
تیرے قدموں کی آہٹ کو ہے دل یہ ڈھونڈھتا ہر دم
ہر اک آواز پہ اک تھرتھراہٹ ہوتی جاتی ہے
یہ کیسی یاس ہے رونے کی بھی اور مسکرانے کی
یہ کیسا درد ہے کہ جھنجھناہٹ ہوتی جاتی ہے
کبھی تو خوب صورت اپنی ہی آنکھوں میں ایسے تھے
کسی غم خانہ سے گویا محبت ہوتی جاتی ہے
خود ہی کو تیز ناخونوں سے ہائے نوچتے ہیں اب
ہمیں اللہ خود سے کیسی الفت ہوتی جاتی ہے
اے میرے اجنبی
تو چلا جائے گا
وقت آنسو ہی آنسو میں ڈھل جائے گا
وقت آہوں میں میری بدل جائے گا
وقت یادوں سے تیری بہل جائے گا
جسم لاوے کی صورت پگھل جائے گا
ذہن پارے کی صورت پھسل جائے گا
تو چلا جائے گا
اے میرے اجنبی