کیا آپ جانتے ہیں
جو ترازو عدالت کے باہر لٹک رہی ہوتی ہے وہ انصاف کی قیمت اپنے اپنے وزن کے مطابق طے کرنے کے لیئے ہوتی ہے۔
عوام تو بھولی بادشاہ، عدل کے وہ پلڑے سمجھ بیٹھی جو انصاف دیا کرتے ہیں۔
بھلا کیا یہ ممکن ہے کہ جھوٹ بیچنے، کمانے اور کھانے والے کرپٹ ترین وکلاء جن پر سیاستدانوں کی نظر کرم نے جج کا تمغہ عطا کیا ہو وہ نیک اور صالح لوگ عوام کو انصاف دے سکیں؟
جو جتنا بڑا چور، غنڈہ اتنا ہی اثرو رسوخ والا وکیل!
جس کے نام سے جج کی بھی ٹانگیں کانپتی ہوں!
یہ کہاں ہوتا ہے؟
جی ہاں یہ سب ملک خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہوتا ہے
آخر یہ سب کب تک چلے گا؟ کب تک ہمارے ملک کی اعلی عدلیہ کا وقار اسی طرح مجروح کرتے رہیں گے؟
کیوں انصاف کرنے والا بلا خوف و خطر فیصلہ سنانے کی ہمت نہیں رکھتا؟
کیوں ایک غریب پھانسی کے پھندے تک آسانی سے پہنچ جاتا ہے اور ایک سیاسی گدھ کے تمام گناہ یا تو معاف کر دیئے جاتے ہیں یاتو سیاسی مصلحتوں کا شکار کر دیئے جاتے ہیں۔
کیوں سیاسی مقدموں کا فیصلہ نہیں ہوتا؟
اگر ہو بھی تو لولا لنگڑا
آخر کیوں
ایان علی کیس رزلٹ صفر
ارسلان افتخار کیس رزلٹ صفر
ڈاکٹر عاصم کیس رزلٹ صفر
سستی روٹی کرپشن کیس رزلٹ صفر
احد چیمہ صرف ریمانڈ رزلٹ صفر
بینظیر ایئر پورٹ کرپشن کیس رزلٹ صفر
رئیسانی حرام کمائی گھر سے برآمد رزلٹ صفر
شرجیل میمن کرپشن کیس رزلٹ صفر
صاف پانی کرپشن کیس رزلٹ صفر
ماڈل ٹاون کیس رزلٹ صف
شہد کی بوتل کیس رزلٹ صفر
مجید MPA اہلکار قتل کیس رزلٹ صفر
بلدیہ ٹاون کیس رزلٹ صفر
سانحہ ساہیوال کیس رزلٹ صفر
شاہ رخ جتوئی کیس رزلٹ صفر
پرویز رشید غداری کیس رزلٹ صفر
راجہ رینٹل کیس رزلٹ صفر
حسین حقانی کیس رزلٹ صفر
فائز عیسی کیس رزلٹ صفر
کیا کبھی نیک اور دیندار لوگ جو آخرت اور یوم حساب کا خوف رکھتے ہوں انصاف کی کرسی پر بیٹیں گے؟
کیا کبھی قرآن و سنت کے مطابق نظام عدل قائم کیا جاسکے گا؟
کیا انگریز کا دیے ہوئے نظام عدل میں اسلامی اقدار اور قرآن و سنت کے مطابق ترامیم کر کے عملاً رائج کیا جا سکے گا؟
کیا نظام عدل کے بنیادی اصول جو کہ اصل میں ایک اسلامی معاشرے کی بنیاد ہیں۔۔۔ ایمانداری، نیک نامی، دیانتداری، امانتداری نہیں ہونے چاہئیے؟
کیا ہمارا معاشرہ ان تمام بنیادی اسلامی اقدار اور رہنما اصولوں سے بہت دور نہیں نکل آیا؟
کیا یہ تمام خوبیاں ہمیں اپنے نظام میں کہیں نظر آتی ہیں؟
تو پھر کیوں نا ملک بھر کے غیر سیاسی اور نیک نامی علماء کرام کی زیر نگرانی چلنے والے مدارس سے تعلیم حاصل کرنے والے قابل نوجوانوں کو قانون کے شبعہ میں لایا جائے؟
دین جن کے سینوں میں ہو گا
جنہیں کم از کم خوف خدا تو ہو گا
جنہیں سچ اور جھوٹ کی تمیز تو گی
جنہیں ناانصافی کرنے اور جھوٹ کا ساتھ دینے پر اللہ کا خوف تو آئے گا
جنہیں رشوت کے عوض انصاف بیچنے پر عذاب الہی تو یاد ہوگا اور خوف خدا سے انکے ہاتھ تو کانپیں گے
کیونکہ عدل و انصاف ہی وہ پیمانہ ہے جس کی بدولت انسانیت زندہ ہے
اگر معاشرہ عدل وانصاف سے عاری ہو تو وہ معاشرہ ظلم و جبر کی آماجگاہ تو ضرور بن سکتا ہے مگر صالح معاشرہ نہیں بن سکتا۔
عدل و انصاف کا جذبہ ہی وہ جذبہ ہے جو انسان کو بلندی کی طرف لے جاتا ہے
یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اخلاقی و معاشرتی احکام کے ساتھ عدل و انصاف کو بیان فرمایا ہے
ارشاد باری تعالی ہے
” اللہ تمہیں عدل و احسان کا حکم دیتا ہے”
تحریر۔: زمان خان
@Zaman_Lalaa








