صوفیہ مرزا کو بڑا دھچکا، عدالت نے عمر فاروق ظہور کے خلاف بیٹیوں کے اغوا کا مقدمہ خارج کردیا

0
49

لاہور کی مقامی عدالت نے عمر فاروق ظہور کے خلاف بیٹیوں کو اغوا کرنے کا مقدمہ خارج کردیا۔

باغی ٹی وی :جوڈیشل مجسٹریٹ لاہور غلام مرتضیٰ ورک نے فیصلے میں کہا ہے کہ ایف آئی اے کو لاہور میں مقدمہ درج ہی نہیں کرنا چاہیے تھا 14 برس قبل بچیوں زینب اور زنیرہ کے اغوا کا مبینہ واقعہ کراچی میں ہوا تو کارروائی بھی وہیں ہونی چاہیے تھی۔

عدالت نے حکم دیا کہ معاملہ ہمارے دائرہ کار میں نہ نہیں ہے اس لیے اس کیس کی فائل تمام انکلوژرز اور شواہد کے ساتھ استغاثہ کو واپس کر دی جاتی ہے تاکہ اسے مناسب فورم پر دائر کیا جا سکے۔

عدالت میں عمر ظہور کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ سپریم کورٹ میں معاملہ 2013 میں حل ہوچکا، صوفیہ مرزا نے 10 لاکھ لے کر کیس نمٹا دیا تھا۔

ایف آئی اے نے مقدمے میں لائبیریا کے سفیر عمر فاروق، صدف ناز اور محمد زبیر کو نامزد کیا تھا،مجسٹریٹ کے فیصلے کے بعد تفتیشی عمل مکمل کرنے کیلئے کیس ایف آئی اے کراچی کو بھیجا جائے گا۔

عمر فاروق ظہور نے شکایت کی درج کرائی تھی کہ ان کی سابق اہلیہ صوفیہ مرزا سابق وزیر احتساب شہزاد اکبر اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹر (مرحوم) ڈاکٹر رضوان کے ساتھ مل کر سازش کی اور ان کے خلاف منی لانڈرنگ اور اغوا کے جعلی مقدمات درج کرائے تاکہ ان پر ایف آئی اے کو سزا دی جائے۔

انتقام کی مہم اور آج کے آرڈر آف لرنڈ مجسٹریٹ نے اپنے موقف کی توثیق کی ہے کہ شہزاد اکبر نے ایف آئی اے لاہور کو اس حقیقت کے باوجود کہ ایف آئی اے لاہور کے دائرہ اختیار میں کمی کے باوجود ایف آئی اے لاہور کو اپنے خلاف جھوٹے مقدمات درج کرنے پر مجبور کر کے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ صدف ناز کی درخواست کے مطابق کراچی میں 2009 میں ہونے والے مبینہ جرم کی ایف آئی آر کے اندراج میں 10 سال سے زائد کی غیر وضاحتی تاخیر ہوئی ہے اور استغاثہ نے 9 گواہ پیش کیے ہیں لیکن وہ جرم کا ریکارڈ پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ملزم کے خلاف مواد صدف ناز نے استدعا کی تھی کہ انہیں بغیر کسی وجہ کے "جعلی اور فرضی” کیس میں گھسیٹا گیا اس لیے ان کے خلاف مقدمہ خارج کیا جائے۔

سمجھا جاتا ہے کہ جج غلام مرتضیٰ ورک کے فیصلے کے بعد کیس اب باقی تفتیش مکمل کرنے کے لیے ایف آئی اے کراچی کو بھیجا جائے گا۔

اس حوالے سےعمر فاروق ظہورکا کہنا تھا کہ سابقہ اہلیہ صوفیہ مرزا نے جون 2020 میں نےانتقامی کارروائی کیلئےجعلی مقدمہ درج کرکے ایف آئی کو ملوث کیا تھا، مقدمہ درج کرانے کیلئے صوفیہ مرزا کو سابق مشیر احتساب شہزاد اکبر اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹر مرحوم ڈاکٹر رضوان کی معاونت حاصل تھی۔

انہوں نے کہا کہ مجسٹریٹ کے فیصلے سے ثابت ہوگیا ایف آئی اے کو غلط مقدمہ درج کرنے کیلئے مجبور کیا گیا۔

گزشتہ سال جون میں جیو اور دی نیوز نے تحقیقات کے بعد انکشاف کیا کہ صوفیہ مرزا کی طرف سے عمر فاروق ظہور پر مبینہ فراڈ اور 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے الزامات لگائے گئے شہزاد اکبر نے ایف آئی اے کو استعمال کرنے کیلئے صوفیہ مرزا کو شکایت درج کرانے کا مشورہ دیا، شکایت وزارت داخلہ کے ذریعے پی ٹی آئی حکومت کی کابینہ تک پہنچی تاہم کابینہ نے عمر فاروق ظہور اور ان کے عزیز کے خلاف 16 ارب روپے کے مبینہ فراڈ کی ایف آئی اے کو تحقیقات کی اجازت دی۔

ایف آئی اے نے تفتیش مکمل کرنے کے بعد عمر فاروق ظہور کے خلاف دو کیسز درج کیے، تحقیقات کے مطابق عمر فاروق ظہور اور شریک ملزم نے ناروے اور سوئٹزرلینڈ میں فراڈ کیے، اوسلو میں 2010 میں 89.2 ملین ڈالر کا بینک فراڈ اور برن میں 12 ملین ڈالر کے فراڈ کا الزام عائد کیا گیا۔

ایف آئی اے کو شکایت میں خوش بخت مرزا نے یہ نہیں بتایا کہ وہ بطور اداکارہ و ماڈل صوفیہ مرزا کے نام سے معروف ہیں، صوفیہ مرزا نے شکایت میں یہ بھی نہیں بتایا کہ عمر فاروق ظہور ان کے سابق شوہر ہیں۔

شکایت میں الزام لگایا گیا کہ عمر فاروق ظہور نےکئی ممالک میں فراڈ کیا اور ناروے میں سزا یافتہ اور مطلوب ہے،عمر فاروق ظہور نے مبینہ طور پر 9.37 ملین ترک لیرا کا بھی فراڈ کیا، گھانا میں 510 ملین ڈالر کا مشکوک معاہدہ بھی کیا، عمر فاروق ظہور کے پاس کالے دھن کے کئی ملین ڈالر اور پاکستان و دبئی میں کئی جائیدادوں کا الزام بھی لگایا گیا۔

صوفیہ مرزا نے سابق شوہر پر سونے کی اسمگلنگ، مہنگی گاڑیاں اورگھڑیوں کی ملکیت اور سونا و رقم گھر میں رکھنے کا الزام بھی لگایا۔

ماڈل صوفیہ مرزا نے ایف آئی سے استدعا کی کہ وہ پاکستان کو بدنام کرنے والے شخص کے خلاف تحقیقات کرے، کابینہ میں شہزاد اکبر کی طرف سے پیش کی گئی سمری کے حوالے سے کوئی سوال نہیں کیا گیا تھا کابینہ کو یہ بتانے کی زحمت بھی نہیں کی گئی کہ خوش بخت مرزا ہی اصل میں صوفیہ مرزا ہیں،کابینہ کو عمر فاروق ظہور کے خوش بخت کا سابق شوہر ہونے اور جڑواں بچیوں کی تحویل کی لڑائی سے بھی لا علم رکھا گیا۔

جوڑے کی 2008 میں طلاق کے بعد بچیاں اپنی مرضی سے والد کے ساتھ دبئی میں مقیم ہیں، کابینہ کو اس بات سے بھی لاعلم رکھا گیا کہ پاکستان اور یو اے ای کی اعلیٰ عدالتوں میں بچیوں کی تحویل کا معاملہ طے ہوچکا ہے۔

صوفیہ مرزا نے بدعنوانی کے دو مقدمات سے قبل سابق شوہر پر بچیوں کے اغوا کا مقدمہ بھی درج کروایا، والدین پر اپنے بچوں کے اغوا کا مقدمہ نہ بننے کے قانون کے باوجود شہزاد اکبر کی ہدایت پر عمر فاروق ظہور کے خلاف مقدمہ بنا، کابینہ میں سمری کی منظوری کے بعد عمر فاروق ظہور کا نام ایگزٹ کنٹرول میں ڈال دیا گیا، قانونی کارروائی مکمل کیے بغیر ناقابل ضمانت وارنٹس کے اجرا کے علاوہ پاسپورٹ اور قومی شناختی کارڈ بلیک لسٹ کردیے گئے، انٹرپول کے ذریعے عمر فاروق ظہور کی گرفتاری کیلئے ریڈ وارنٹس بھی جاری کر دیے گئے۔

عمر فاروق ظہور نے لائبیریا کے سفیر کے طور پر ایف آئی اے کے اقدامات کو ختم کرانے کیلئے کارروائی شروع کی، عدالتی کارروائی کے بعد ناقابل ضمانت وارنٹس اور ریڈ وارنٹس منسوخ ہوئے۔

عدالت نے یہ مشاہدہ کیا کہ اشتہاری قرار دینے سے قبل مجوزہ طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا تھا، عدالت نے یہ مشاہدہ بھی کیا کہ 2019 سے لائبیریا کا سفیر ہونے کی حیثیت سے عمر فاروق ظہور کو قانونی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔

عمر فاروق ظہور کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہونے کے باوجود ایف آئی اے نے ڈفیوژن نوٹس جاری کیا، عمر فاروق کو استثنیٰ اور ہائی کورٹ کے احکامات کے باوجود ان کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹس جاری کرائےگئے۔

عدالتی حکم نامے کے مطابق ایف آئی اے نے ڈفیوژن نوٹس کی اجازت کے حوالے سے انٹرپول سے جھوٹ بولا، ایف آئی اے کے غیر قانونی اقدامات سے بچانے کیلئے عمر فاروق نے جوڈیشل مجسٹریٹس لاہور غلام مرتضیٰ ورک سے رابطہ کیا۔

جوڈیشل مجسٹریٹس لاہور غلام مرتضیٰ ورک کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ دونوں کیسز میں نہ تو ناقابل ضمانت وارنٹس جاری کیےگئے اور نہ ایف آئی اے کی جانب سے کوئی رپورٹ پیش کی گئی، عمر فاروق ظہور کا نام سرخیوں میں اس وقت آیا جب سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عمران خان کے غیرقانونی احکامات ماننے سے انکار کا انکشاف کیا۔

بشیر میمن پر مارچ 2022 میں الزام لگایا گیا کہ انہوں نے عمر فاروق کو پاکستان کے دورے کرنے کی غیر قانونی اجازت دی، سوئس حکام نے 7 دسمبر 2020 کو تصدیق کےشواہدکی کمی اور ٹائم بار کے سبب عمر فاروق کے خلاف کیس خارج کردیا گیا۔

ترک باشندے کی طرف سے لگائےگئے فراڈ کے الزام کی نیب نے انکوائری کی، کرپشن کا کوئی ثبوت نہ ملنے پر اگست 2013 کو احتساب عدالت نے عمر فاروق کو کلین چٹ دی تھی۔

مئی 2020 میں ناروے حکام نے بینک فراڈ کیس عدم ثبوت پر عمر فاروق کے خلاف کیس بند کردیا تھا، سوئٹزرلینڈ اور ناروے کی طرف سے عمر فاروق ظہور پر کیسز ختم ہوتے ہی ان پر پاکستان میں عجلت میں کیسز بنائےگئے۔

Leave a reply