سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیس میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ دہشتگردی کنٹرول کرنا پارلیمان کا کام ہے عدالت کا نہیں۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کےفیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی ،وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب کے دلائل دیے،دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ” آپ کے مطابق فوجی عدالتیں آرٹیکل 175 کے زمرے میں نہیں آتیں، فوجی عدالتیں آئین کی کس شق کے تحت ہیں پھر یہ بتا دیں”؟ جس پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت میں کہا کہ کورٹ مارشل کے حوالے سے کئی عدالتی فیصلے موجود ہیں، عدالتوں نے صرف دیکھنا ہوتا ہے کہ ٹرائل آئین کے مطابق ہے یا نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا دہشتگردی کنٹرول کرنا پارلیمان کا کام ہے عدالت کا نہیں، عدالت یہ سوچنے لگ گئی کہ فیصلے سے دہشتگردی کم ہوگی یا بڑھے گی تو فیصلہ نہیں کر سکے گی،بعد ازاں آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی،خواجہ حارث کل بھی جواب الجواب جاری رکھیں گے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کے مطابق فوجی عدالتیں آرٹیکل 175 کے زمرے میں نہیں آتیں،فوجی عدالتیں آئین کی کس شق کے تحت ہیں پھر یہ بتا دیں؟

دوسری جانب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ میں 9 مئی کے مبینہ ملزمان کی ضمانت کی منسوخی کیس میں حکم دیا ہے کہ ضمانت پر رہا کیے گئے ملزمان تفتیش کے لیے 7 دن کے اندر عدالت میں پیش ہوں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں 9 مئی کے مبینہ ملزمان کی ضمانت کی منسوخی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی سے پنجاب حکومت کے وکیل نے عدالتی آپشنز پر نئی ہدایات کے لیے مزید مہلت مانگی، جس پر عدالت نے پنجاب حکومت کو کل تک کا وقت دے دیا،سماعت کے دوران چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ فرض کرلیں ضمانت کا فیصلہ واپس لے لیں پھر کیا ہوگا؟ جس پر پنجاب حکومت کے وکیل ذوالفقار نقوی نے کہا کہ 9 مئی صرف احتجاجی ریلی نہیں تھی، 9 مئی کو ایک ادارہ پرحملہ کیا گیا، جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کو 3 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کا کہہ دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ضمانت منسوخ کریں تو پھر ٹرائل رہ جائیں گے، جس پر وکیل صفائی نے کہا کہ ٹرائل پراسیکیوشن مکمل کروائیں گے، جس پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ہم سے کسی قسم کی فائڈنگ نہ لیں، کہہ دیتے ہیں کہ جن کی ضمانت ہو چکی ہے وہ 7 دن میں شامل تفتیش ہوں، 7 دن میں ملزمان شامل تفتیش ہوں تاکہ عدالت فیصلہ کرے۔

چیف جسٹس یحیٰی آفریدی نے حکم دیا مبینہ ملزمان تفتیش کے لیے 7 دن کے اندر اندر عدالت میں پیش ہوں ، ٹرائل کورٹ کو 4 ماہ میں فیصلہ سنانے کی ہدایت بھی کر دیں گے،اس موقع پر پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ 3 ماہ میں ٹرائل مکمل نہیں ہوگا، ٹرائل عدالتوں میں چالان داخل نہیں ہو سکیں گے، مجھے اس آپشن پر ہدایات کے لیے کل تک کی مہلت دے دیں، چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

Shares: