اسلام آباد، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قواعدِ ضابطہ اور استحقاق کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر وقار مہدی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔قائمہ کمیٹی اجلاس میں سینیٹر ز سعدیہ عباسی، دوست علی جیسَر،اسد قاسم، جان محمد اور پلوشہ خان نے شرکت کی۔ سینیٹرز سلیم مانڈوی والا ، شہادت اعوان اور سید مسرور احسن نے بطور موور میٹنگ میں شرکت کی۔ سینیٹر بلال مندوخیل کو خصوصی طور پر میٹنگ میں مدوع کیا گیا۔
قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کمیٹی کی کارروائی میں براہِ راست عدالتی مداخلت پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے زور دیا کہ عدالتوں کو پارلیمانی امور میں مداخلت کا اختیار حاصل نہیں ہونا چاہیے اور سپریم کورٹ متعدد مواقع پر ہدایت دے چکی ہے کہ پارلیمانی کارروائی میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ انہوں نے اس امر پر سختی سے زور دیا کہ سینیٹ کو اپنی کمیٹیوں کے اختیارات اور اتھارٹی پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ ایوان بالا عوامی نمائندگی کا مرکز ہے اور کمیٹیاں ایوان کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے عوامی اہمیت کے معاملات کو زیرِ بحث لانے کے لیے مکمل طور پر بااختیار رہیں۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر سید وقار مہدی نے اس بات کی توثیق کی کہ پارلیمنٹ ایک سپریم ادارہ ہے اور اس کی کمیٹیوں کو اس انداز میں بااختیار بنایا جانا چاہیے کہ وہ افراد/شہریوں سے متعلق مسائل مؤثر طور پر حل کر سکیں۔ تاہم، انہوں نے اس امر کی نشاندہی کی کہ کمیٹیوں کو عدالت میں زیر سماعت معاملات پر بحث پر سختی سے گریز کرنا چاہیے۔
پارلیمانی قوانین و طریقہ کار کی ماہر محترمہ رابعہ انور نے افسران کے پینل کے ہمراہ مجوزہ ترمیم پر تفصیلی بریفنگ دی، جس میں اس کے فوائد اور نقصانات واضح کیے گئے۔ سینیٹر سعدیہ عباسی نے رائے دی کہ ہر ادارے کو اپنے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے اور دیگر اداروں کے امور میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔ انہوں نے مجوزہ ترمیم کی مخالفت کی۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں تفصیلی بحث و مباحثہ اور غور و خوض کے بعد اراکین کمیٹی کی اکثریت نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا جسے قائمہ کمیٹی نے ترمیم کے حق میں اکثریتی رائے کو منظور کر لیا۔
کمیٹی اجلاس میں سب کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں قائداعظم یونیورسٹی کے طلبہ کے خلاف درج 77 ایف آئی آرز کا معاملہ بھی زیرِ غور آیا جو فیصلے کے مطابق تاحال واپس نہیں لی گئیں۔ پولیس حکام نے قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا کہ یہ ایف آئی آرز قائداعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلرجو کہ ایک سرکاری ادارہ ہے کی درخواست پر درج کی گئی تھیں، لہٰذا پولیس انہیں ازخود واپس نہیں لے سکتی۔ قائمہ کمیٹی نے وائس چانسلر کی جانب سے ایف آئی آرز واپس لینے کے یقین دہانی کو دوہرایا اور اس معاملے پر عدم تعمیل کا نوٹس بھی لے لیا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قواعدِ ضابطہ اور استحقاق نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ وائس چانسلر قائدا عظم یونیورسٹی کو قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں دوبارہ طلب کیا جائے تاکہ تاخیر کی وجوہات کے بارے میں پتہ چل سکے قائمہ کمیٹی نے اس حوالے سے حقائق پر مبنی رپورٹ بھی طلب کر لی۔
مزید برآں قائمہ کمیٹی میں اسلام آباد کے شہری کے مکان کی فائل گم ہونے کا معاملہ زیر بحث آیا۔ کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے حکام نے عدالتی حکم نامے پیش کرتے ہوئے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ سی ڈی اے باقاعدگی سے عدالتی کارروائی میں پیش ہوتا رہا ہے، جبکہ درخواست گزار عدالت میں پیش ہونے میں ناکام رہا۔ سینیٹر سعدیہ عباسی نے اس بات کی نشاندہی کی کہ شہریوں کو روزمرہ بنیادوں پر ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سرکاری ریکارڈ کی حفاظت مکمل طور پر سی ڈی اے کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے اسے واضح طور پر سی ڈی اے کی غفلت قرار دیا۔چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے قواعدِ ضابطہ اور استحقاق سینیٹر وقار مہدی نے اس معاملے پر سی ڈی اے کے ذمہ دار افسران کے بارے میں استفسار کیا جس پر انہیں بتایا گیا کہ متعلقہ ملازمین کو شوکاز نوٹسز جاری کر دیے گئے ہیں۔جس پر قائمہ کمیٹی نے عدالتی کارروائی کے اختتام تک معاملہ زیرِ التواء رکھنے کا فیصلہ کیا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قواعدِ ضابطہ اور استحقاق کے اجلاس میں سینیٹر سید مسرور احسن نے وزارتِ قومی غذائی تحفظ و تحقیق کی جانب سے ان کی متعدد ٹیلی فون کالز کا مناسب جواب نہ دینے پر تحریک استحقاق دی تھی۔ جس پر سیکریٹری وزارت فوڈ سیکورٹی نے قائمہ کمیٹی کے سامنے غیر مشروط معذرت پیش کی اور رابطے میں خلل کی وجہ واٹس ایپ میں تکنیکی مسائل کو قرار دیا۔ انہوں نے آئندہ معزز سینیٹرز کے رابطے کا بروقت اور مؤثر جواب دینے کی یقین بھی دہانی کرائی۔ سینیٹر مسرور احسن کی جانب سے سیکریٹری فوڈ سیکورٹی کی معذرت قبول کرنے پر استحقاق کی تحریک نمٹا دی گئی۔
سینیٹر جام سیف اللہ دھارہیجو کی سیکریٹری صحت سندھ کے خلاف استحقاق کی تحریک سینیٹر جام سیف اللہ دھارہیجو کی جانب سے مذکورہ سیکریٹری صحت سندھ کی معذرت قبول کرنے پر نمٹا دی۔








