عدم اعتماد ! اور پاکستان ،تحریر : تابش عباسی

0
51

وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آج کل وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے حوالے سے ہر روز کوئی نہ کوئی خبر سامنے آتی ہی رہتی ہے ۔ اس عدم اعتماد نے شاید عمران خان صاحب کو اپنے کچھ خاص لوگوں کے اصلی رنگ بھی دکھائے ۔ اس پورے عدم اعتماد کی تحریک کو بریک آ کر ان ہی کچھ ممبرانِ اسمبلی کی ہاں یا ناں پر لگی ہے جو میرے خیال سے جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں ۔ یہ وہی چند لوگ ہیں جو مشرف صاحب کے بعد ، پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ ن اور اب موجودہ حکومت میں پاکستان تحریک انصاف کے وفادار بنے تھے ۔ تازہ ترین مثال ندیم افضل چن صاحب کی ہے جو پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے تو پاکستان پیپلز پارٹی کی برائیاں کی اور اب معاون حکومت کا عہدہ واپس لیے جانے کے بعد دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تو ان کو پاکستان تحریک انصاف میں برائیاں نظر آنے لگی ۔ چن صاحب اور ان جیسے اور موسمی پرندے جمہوریت کے نام پر بدنما داغ ہیں ۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ وطن عزیز میں جمہوریت کو سب سے زیادہ نقصان بھی جمہوری لوگوں نے ہی پہنچایا ہے ۔

عمران خان صاحب کی ایک بہت بڑی ناکامی یہ ہے کہ موجودہ حکومت عام لوگوں کی نظر میں صرف اس لیے ناکام ہے کیونکہ مہنگائی کا جن اس حکومت سے آج تک قابو نہ ہو سکا ۔ شاید جو اقدامات اس حکومت نے کیے ان کا ثمر آمدہ چند سالوں میں نظر آئے مگر "مہنگائی” نے حکومت کے سب اچھے اقدامات پر بھی پردہ ڈال رکھا ہے ۔ دوسری بڑی غلطی اس حکومت میں شاید نااہل لوگوں کو ملنے والے اعلی عہدے تھے ، حکومتی وزراء میں سے چند ایک کے سوا اپنا کام اس طرح نہ کر پائے جس کے دعوے کیے گئے تھے ۔ معاونین کے نام پر غیر منتخب نمائندوں کی ایک ایسی فوج وزیر اعظم کے ارد گرد بھارتی کی گئی جس نے وزیر اعظم اور ان کے منتخب نمائندوں میں نفرت کا نہ صرف بیج بویا بلکہ پروان بھی چڑھایا ۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والے جہانگیر ترین اور علیم خان صاحب ، اعظم خان کا رونا روتے نظر آئے ۔ شاید عمران خان صاحب کو اب یہ سمجھ آ گئی ہو گی اور ان کو مان بھی لینی چاہیے کہ اپنی حکومتی ٹیم بناتے وقت ان سے غلطیاں ہوئی ہیں ۔ تیسرا بڑا مسئلہ وزراء حکومت کی جانب سے غیر ضروری بیان بازی بھی رہی جس نے اپوزیشن کے تمام دھڑوں کو اکھٹے لا کھڑا کیا ۔

اپوزیشن اس وقت اس بات پر متفق ہے کہ عمران خان صاحب کو وزیر اعظم نہیں رہنا چاہیے – پر سوال یہ ہے کہ نیا وزیراعظم ہو گا کون ؟ اس کے پاس اختیارات کیا ہونگے ؟ ملک جس نہج پر ہے یا جو حالات اس وقت بین الاقوامی سطح پر ہیں ان میں کیا عدم اعتماد درست اقدام ہو گا ؟ 24 سال بعد آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کی پاکستان آمد کے موقع پر یہ سیاسی لڑائی کہیں وطن عزیز کو 2009 والی پوزیشن میں نہ لے جائے ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اگر کوئی حقیقی معنوں میں جمہوری جماعت ہوتی تو شاید یہ دن دیکھنا ہی نہ پڑتا ۔ جب تک وارثتی سیاست ہو گی تو پھر ذاتی لڑائیاں بھی جمہوریت و جمہور کے نام پر لڑی جائیں گی ۔

رہی سہی کسر انصار السلام کے رضاکاروں کی پارلیمنٹ لاجز میں موجودگی نے پوری کر دی ۔ پوری دنیا میں شاید ایسی مثال کہیں نہ ملے کہ منتخب نمائندوں کی حفاظت کے لیے ایک مذہبی و سیاسی جماعت کی عسکری ونگ میدان عمل میں آ جائے ۔ شاید یہ تحریک عدم اعتماد کو پرتشدد بنانے کی کوشش ہے ۔عمران خان صاحب اور ان کی پوری ٹیم کو یہ بات سمجھنا ہو گی اب ان کو ہر بات ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے ۔ خود وزیر اعظم صاحب کو اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ وزیر اعظم ریاست کا سربراہ ہوتا ہے ۔ باقی وزیر اعظم کوئی بھی ہو ، پاکستان زندہ باد رہنا چاہیے کیونکہ لوگ آتے جاتے رئیں گے پر ملک قائم رہے گا انشاء اللہ ۔

Leave a reply