وہ مسکرا رہا تھا۔
چہرہ تازہ، آنکھوں میں چمک، کیمرہ آن… اور دنیا واہ واہ کر رہی تھی۔
مگر اگلے دن خبر آئی کہ وہ اب نہیں رہا۔
وہ جس کی ہر پوسٹ پر ہزاروں کمنٹس ہوتے تھے، آج اس کی موت پر صرف ایک پوسٹ نے سب کچھ سمیٹ دیا:
"اللّہ مغفرت فرمائے، بہت کامیاب اور اچھا انسان تھا!”
یہ سطریں اب عام ہو گئی ہیں۔ اب کسی "اچھے اور کامیاب” انسان کا اچانک چلے جانا ہمیں چونکاتا نہیں، بس افسوس کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن کیا ہم نے کبھی رُک کر سوچا ہے کہ آخر وہ سب کچھ رکھتے ہوئے بھی ادھورا کیوں تھا؟
ہم ایک ایسے سماج میں جی رہے ہیں جہاں چہرہ مکمل ہونا لازم ہے — صاف، نکھرا، خوش باش — چاہے روح اندر سے کچلی ہوئی ہو۔
جہاں خواب دکھانا ضروری ہے، چاہے وہ سچ نہ ہوں۔
جہاں کامیابی کی تعریف صرف فالوورز، گاڑی، گھر، اور غیرملکی دوروں سے جڑی ہو۔
اور جہاں اگر کوئی کہے کہ "مجھے مدد چاہیے”، تو ہم اسے کمزور سمجھتے ہیں، ناکام سمجھتے ہیں۔
گزشتہ برسوں میں پاکستان میں کئی ایسے نوجوان، فنکار، انفلوئنسرز، اور کاروباری افراد موت کی وادی میں اُتر گئے، جنہیں ہم نے "کامیاب” مانا تھا۔ اُن کی زندگیاں بظاہر مکمل تھیں، مگر اندر کوئی ایسی خاموش جنگ چل رہی تھی، جو وہ ہار گئے۔
کیا یہ محض اتفاق ہے؟
نہیں۔ یہ ہمارے اجتماعی رویّے کی وہ سنگین غلطی ہے جسے ہم نے "معمول” سمجھ لیا ہے۔
ہم اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ وہ کچھ بنیں، آگے نکلیں، مشہور ہوں۔
لیکن ہم یہ نہیں سکھاتے کہ دل کو کیسے سنبھالنا ہے؟
ہم انہیں مقابلہ سکھاتے ہیں، مگر ہارنے پر گلے لگانا نہیں سکھاتے۔
ہم انہیں خواب دکھاتے ہیں، مگر نیند چھن جانے پر خاموش ہو جاتے ہیں۔
کامیابی اب ایک تماشہ بن چکی ہے۔
اندر سے ٹوٹا ہوا انسان بھی اگر باہر سے "پرفیکٹ” نظر آئے، تو وہ قابلِ رشک ہے۔
لیکن جو سچ بول دے، جو آنکھ میں آنسو لے آئے، وہ یا تو کمزور ہے یا attention seeker۔
آج کسی کی خودکشی پر ہم افسوس تو کرتے ہیں، مگر اس سے کچھ سیکھنے کو تیار نہیں۔
ہم اب بھی ہر نوجوان کو وہی "کامیابی کا فارمولا” تھما رہے ہیں:
زیادہ کماؤ، مشہور ہو جاؤ، فالوورز بڑھاؤ…
اور اگر کہیں ٹوٹنے لگو، تو خاموشی سے ٹوٹ جاؤ، لوگوں کو بتانا مت۔
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ وہ نوجوان جن کے خواب ہم نے دیکھے، وہ کیوں ادھورے رہ گئے؟
کیوں ایک کامیاب چہرے کے پیچھے ہارے ہوئے انسان نے خود کو ختم کر لیا؟
کیا صرف وہ قصوروار تھا… یا ہم سب؟
ہمیں اب اپنے رویّے بدلنے ہوں گے۔
کامیابی کی نئی تعریف لکھنی ہو گی۔
ایسی کامیابی جو ذہنی سکون دے، جو رشتے نہ توڑے بلکہ جوڑے، جو انسان کو صرف اوپر نہ لے جائے بلکہ اندر سے سنوارے۔
ہمیں "اچھا بننے” سے زیادہ "سچ بولنے” کی ہمت پیدا کرنی ہو گی۔
کبھی کبھار صرف اتنا پوچھ لینا، "تم واقعی خوش ہو؟”،
کسی کی جان بچا سکتا ہے۔
قرآنِ کریم میں فرمایا گیا:
"وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي كَبَدٍ”
"ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔” (سورۃ البلد: 4)
زندگی کا اصل چہرہ یہی ہے — آزمائش، جدوجہد، تھکن، اور تنہائی۔
ہم سب ان مشقتوں کا حصہ ہیں، مگر کچھ لوگ انہیں اکیلے جھیلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ہم دوسروں کی چمک دیکھ کر رشک کرتے ہیں، مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ روشنی جتنا قریب آتی ہے، سایہ اتنا گہرا ہو جاتا ہے۔
شاعر احمد فراز کے لفظوں میں:
یہ لوگ کتنے مسافر ہیں کتنے خالی ہیں
نظر سے دور ہیں لیکن دلوں کے ساتھ نہیں
تو اگلی بار جب آپ کسی روشن چہرے کو دیکھیں،
تو ذرا آنکھوں میں جھانک لیجیے گا —
شاید وہاں کوئی ادھورا خواب مدد کا منتظر ہو…