الیکشن کمیشن میں عادل بازئی کی نااہلی کیلئے ریفرنس پر سماعت ہوئی
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن نے سماعت کی،عادل بازئی کے وکیل نےدلائل دیئے اور کہا کہ عادل بازئی کے نام سے کمیشن میں جمع کروایا گیا بیان حلفی جعلی ہے، الیکشن کمیشن بیان حلفی کا فرانزک ٹیسٹ کروا لے جعلی ثابت ہو گا، عادل بازئی نے کبھی ن لیگ میں شمولیت اختیار نہیں کی،ن لیگ کے ریفرنس میں بھی درج ہے کہ عادل بازئی کبھی حکومتی بینچز پر نہیں بیٹھے، میرے موکل کا شناختی کارڈ نمبر بھی درست نہیں لکھا گیا،
الیکشن کمیشن نے ممبر قومی اسمبلی عادل بازئی کی نااہلی کیلئے مسلم لیگ ن کے صدر کی جانب سے دائر ریفرنس پر دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا
مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے آرٹیکل 63 اے کے تحت عادل بازئی کی نااہلی کے حوالے سے ایک ریفرنس اسپیکر قومی اسمبلی کو بھجوایا تھا۔ اس ریفرنس کے تحت قومی اسمبلی نے عادل بازئی کی نشست خالی قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے، جس کے بعد یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے سامنے پیش کیا گیا۔عادل بازئی نے آزاد حیثیت سے حلقہ این اے 262 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی تھی اور پارٹی کی پالیسی کے تحت حلف نامہ جمع کرایا تھا۔ تاہم، انہوں نے حالیہ سیاسی حالات کے دوران پارٹی کی ہدایت کے خلاف 26 ویں آئینی ترمیم اور وفاقی بجٹ کے بارے میں ووٹ نہیں دیا، جس کی وجہ سے ان کی وفاداری پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے پہلے ہی دو خطوط الیکشن کمیشن کو بھیجے تھے، جس میں عادل بازئی کی نااہلی کے حوالے سے شواہد پیش کیے گئے تھے۔ اب تیسرا خط، جو آج ایڈوائزر قانون سازی محمد مشتاق کی جانب سے سیکرٹری الیکشن کمیشن کو بھجوایا گیا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسمبلی اس معاملے میں مزید تاخیر نہیں چاہتی اور فیصلہ جلد از جلد کرنا چاہتی ہے۔
یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنے داخلی معاملات میں سختی سے اقدام کر رہی ہے اور پارٹی کے وفاداروں کے خلاف کسی بھی نوعیت کی بغاوت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ عادل بازئی کی سیاسی مستقبل پر ہونے والی اس پیشرفت کی جانب نظریں لگی ہوئی ہیں، خاص طور پر اس وقت جب پاکستان کی سیاسی منظرنامہ میں اتار چڑھاؤ جاری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اس ریفرنس پر کب اور کیا فیصلہ کرتا ہے، جو نہ صرف عادل بازئی کی نشست بلکہ مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مستقبل پر بھی اثرانداز ہو سکتا ہے۔








