ادویات کی عدم دستیابی، پاراچنار میں 29 بچوں کی موت

پاراچنار کے عوام اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہیں، جہاں 65 دنوں سے محاصرے کی حالت برقرار ہے۔ علاقے میں بنیادی ضروریاتِ زندگی بشمول ادویات، خوراک، اور پیٹرول کی کمی کے باعث انسانی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ عوام فاقوں پر مجبور ہیں، اور کئی معصوم بچے علاج نہ ملنے کے باعث اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔

ضلع ہیڈکوارٹر ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر سید میر حسن جان نے بتایا کہ یکم اکتوبر سے ہسپتال میں دواوں اور بنیادی سہولتوں کی کمی کے باعث مریضوں کو مناسب علاج فراہم نہیں کیا جا سکا ہے۔ اُنہوں نے خبردار کیا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ صورتحال صحت کے شعبے میں سنگین بحران پیدا کر سکتی ہے۔ڈاکٹر سید میر حسن جان نے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں کہا کہ "ہسپتال میں دواوں کا ذخیرہ پشاور ہیلتھ ڈائریکٹریٹ سے موصول ہوا تھا، لیکن یہ مقدار ہسپتال کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔” اُنہوں نے مزید کہا کہ علاقے میں ہونے والی جھڑپوں کے باعث دواوں اور سرجیکل سامان کا استعمال بہت زیادہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے ہسپتال میں دواوں کی کمی شدت اختیار کر گئی ہے۔ڈاکٹر حسن جان نے بتایا کہ "اس وقت ہسپتال کے مختلف یونٹس میں دواوں کی شدید کمی ہے اور اس مسئلے کو انسانیت کے ناطے فوراً حل کرنے کی ضرورت ہے۔” بیان میں یہ بھی ذکر کیا گیا کہ یکم اکتوبر 2024 سے اب تک 29 بچے ہسپتال میں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ دواوں کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ تھل-پاراچنار روڈ بند ہونے کے باعث دوا فراہم کرنے والی کمپنیاں دواوں کو پاراچنار تک پہنچانے میں ناکام ہیں۔ اس روڈ کی بندش کو 69 دن ہو چکے ہیں، جس سے نہ صرف دوا کی فراہمی متاثر ہوئی ہے بلکہ پاراچنار اور اپر کرم کے علاقے میں ضروری اشیاء جیسے کہ کھانے پینے کی چیزیں، ایندھن اور گیس کی کمی بھی شدت اختیار کر گئی ہے۔

سماجی کارکن اسد اللہ نے صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر افغان سرحد اور اہم شاہراہوں کو فوراً کھولا نہ گیا تو علاقے میں ایک بڑا انسانی سانحہ پیش آ سکتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ "ہمیں فوری طور پر ضرورت مند افراد کے لیے کھانے پینے کی امداد فراہم کرنی چاہیے کیونکہ سڑکوں کی بندش کی وجہ سے مقامی لوگ شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔”مقامی انتظامیہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کی کوششیں کر رہی ہیں۔ ضلع انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ کوہاٹ میں ملتوی ہونے والی گرینڈ جرگہ کو دوبارہ طلب کیا جائے گا تاکہ شاہراہوں کی بحالی اور دیگر مسائل پر بات چیت کی جا سکے۔ اس جرگہ کا مقصد علاقے میں امن و امان قائم کرنے اور ضروری خدمات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔

پاراچنار کی صورتحال اس قدر سنگین ہو چکی ہے کہ یہاں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی اموات میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ مقامی افراد اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بات کا بار بار مطالبہ کر رہی ہیں کہ علاقے کے راستے کھولے جائیں تاکہ متاثرین کو ادویات، خوراک، اور دیگر ضروری سامان فراہم کیا جا سکے۔ لیکن محاصرے کی وجہ سے ان تک امداد پہنچنا مشکل ہو گیا ہے۔ پاراچنار میں ادویات کی شدید کمی کے باعث مریضوں کا علاج معالجہ ممکن نہیں ہو پا رہا۔ کئی بچے جنہیں معمولی علاج کی ضرورت تھی، وہ اس کمی کے باعث اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ اس کے علاوہ، علاقے میں خوراک کی کمی کی وجہ سے روزے رکھنے والے عوام کے لئے حالات اور بھی بدتر ہو گئے ہیں۔پاراچنار میں پیٹرول اور دیگر ضروری اشیائے خورد و نوش کی شدید کمی ہو چکی ہے، جس کے باعث عوام کو روزمرہ کی زندگی گزارنے میں سخت مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ علاقے کے مختلف حصوں میں پیٹرول کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، اور لوگ اپنی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ روزانہ کی ضروریات کو پورا کرنے میں بھی دشواری محسوس کر رہے ہیں۔

فیصل ایدھی ایئر ایمبولینس کے ہمراہ پارا چنار پہنچ گئے
پاراچنار میں جاری اس انسانی بحران کے حل کے لئے ایدھی فاؤنڈیشن نے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ ایدھی ایئر ایمبولینس کی پہلی پرواز پاراچنار ایئرپورٹ پر پہنچی ہے، جس میں فیصل ایدھی بھی اپنی ٹیم کے ہمراہ پاراچنار پہنچے۔ فیصل ایدھی کا کہنا تھا کہ وہ خود یہاں آ کر عوام کی مشکلات کا جائزہ لینے کے لیے آئے ہیں اور اس بحران کے حل کے لیے اپنے ادارے کی طرف سے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائیں گے۔ایدھی ایئر ایمبولینس کی پرواز کے ذریعے پشاور سے ادویات پاراچنار پہنچائی جائیں گی اور ساتھ ہی مقامی مریضوں کو پشاور منتقل کر کے ان کا علاج کیا جائے گا۔ فیصل ایدھی نے کہا کہ ان کی ٹیم پاراچنار کے ہسپتالوں میں ضروری امداد فراہم کرے گی اور جلد از جلد مزید امدادی کارروائیاں شروع کی جائیں گی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر صحافی وقار ستی کہتے ہیں کہ خیبر پختونخواہ کے علاقے پارہ چنار ہسپتال میں ادویات کی عدم دستیابی کے باعث 29 معصوم بچوں نے دم توڑ دیا، مگر انسانی حقوق کے ٹھیکیدار اور نام نہاد جعلی انقلابی سب کے سب خاموش ہیں۔ لگتا ہے ان بچوں کی موت میں کوئی “سیاسی فائدہ” نہیں تھا، اس لیے نہ کوئی مارچ نکلا، نہ کوئی ٹویٹ ہوا۔ انسانیت یہاں مر گئی اور ضمیر کہیں بیچا جا چکا ہے۔

Comments are closed.