افغان امن عمل ، طالبان، اور افغانستان کی بگڑتی صورتحال تحریر:زاہد چوہدھری

0
30

افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن مذاکرات کرنے کی پہلی کوشش اوباما کے دور میں میں منظر عام
پر ٓئیں۔ پھر 2011 ء اور 2013ء کے اوائل میں کو ششیں کی گئیں لیکن بد قسمتی سے وہ بھی ناکام رہیں؛ جون 2013ء میں قطر میں ہونے والے مذاکرات کو صدر حامد کرزئی نے صرف اس لے منسوخ کر دیا تھا کیونکہ طالبان نےُُُ امارت اسلامی افغانستان کا پرچم اس دفتر پر لگادیا تھا جہامذاکرات منعقد ہونا تھے۔اس کے صرف ایک ماہ بعد طالبان نے اپنا دفتر بند کر دیا اوافغان امن عمل مذاکرات طویل عرصے تک تعطل کا شکار رہے۔ پھر تین سال بعد ایک ا جلاس امریکہ، چین اور پاکستان کے درمیان2016ء میں ہوا، جس کی سربراہی پاکستان نے کی، اورجس کا مقصد طالبان کابل امن کو یقینی بنانا تھا، لیکن اس کا بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہو سکا۔

ٹرمپ، جنہوں نے اگلے سال امریکہ میں عہدہ سنبھالا، نے افغانستان امن مذاکرات کو ایجنڈے میں شامل کیا اور طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کرانے کی کوششیں کیں۔دوسری طرف اشرف غنی حکومت نے نہ صرف امریکہ کے اس ا قدام کی ؎حمایت کی بلکہ کہا کہ وہ طالبان کے ساتھ بغیر کسی شرط کے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ طالبان کے ساتھ مختلف وعدے بھی کیے گئے جن میں افغان جیلوں میں قید طالبان کی رہائی، اور طالبان کو ایک سیاسی جماعت تسلیم کرنا، اور دونوں جانب سے حملوں کا روکنا شامل تھا۔ لیکن جب کابل حکومت نے طالبان سے کیے گئے وعدوں پر عمل نہ کیا تو طالبان نے کابل حکومت سے یہ کہتے ہوے منہ موڑ لیا کہ وہ خود کو صرف امریکہ سے مخاطب کریں گے نہ کہ غنی سے۔ اس کے بعد 2018ء سے طالبان نے سخت گیر اور غیر سمجھوتے والا رویہ محدود طریقے سے کم کیا،امریکہ اور طالبان کے نمائندوں نے فروری 2019ء میں امن مذاکرت کے لیے دوحا میں ملاقاتیں کیں جو چھ ماہ تک جاری رہیں اور یہ اعلان کیا گیا کہ امریکہ اور طالبان معاہدے کے قریب ہیں۔

تاہم، اگست 2019ء میں یہ مثبت مزاج جلد ہی غائب ہو گیااور اگلے مہینے امریکی نمائندہ خصوصی برا ئے افغان امور زلمے خلیل زاد نے اعلان کیا کہ فریقین کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے اور یہ کہ ٹرمپ کی منظوری طلب کی گئی ہے۔ لیکن ٹرمپ نے اعلان کیا کہ انہوں نے کابل میں دہشت گردانہ حملے میں ایک فوجی کی ہلاکت کے بعد اس معاہدے کو روک دیا تھا۔

پھر دسمبر2019ء میں امریکہ اور طالبا ن کے درمیا ن دوبارہ مذاکرات شروع ہو ئے،یہ خیال کہ خلیل زاداور طالبان حکام کے درمیان امن مذاکرات ٓہستہ ٓہستہ ختم ہوگئے تھے،اور پہلی بار دیکھا گیا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات بہت ٹھوس ہوے ہیں۔ تشدد میں کمی، افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کا انخلاء،بین الافغان مذاکرات، اور طالبان کے امن معاہدے کے مذاکرات کے فریم ورک کے اندر انسداددہشت گردی کی ضمانت جیسے فیصلوں کو ایجنڈے میں شامل کیا گیا اور یہ کہ امریکہ ستمبر 2021ء تک اپنی افواج کو افغانستان سے نکال لے گا۔امریکہ نے یہ معاہدہ اس شرط پر کیا کہ طالبان افغانستان کے اندر القائدہ جیسے عسکریت پسند گروہوں کا خاتمہ کریں گے۔

ان مذاکرات کی رو سے افغانستان سے تقریبا 20 سال کے بعد امریکی فوج نے صدر بائیڈن کی ہدایت پر ملک سے فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ کیا جس سے امریکہ کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ پنٹاگو ن کے مطابق 95 فیصدامریکی فوجی انخلا کر چکے ہیں، جسکے ساتھ ہی طالبان نے اپنی موجودگی کو ملک کے بڑے حصوں تک بڑھا دیا ہے، اور طالبان نے دعوہ کیا کہ انہوں نے ملک کے بیشتر داخلی اور خارجی راستوں پر قبضہ جما لیا ہے، جن میں پاکستان کے ساتھ منسلک اسٹریٹجک بارڈر سپین بولدک، ایران اور ازبکستان کے بارڈرز شامل ہیں۔

لانگ وار (Long War Journal) کے مطابق طالبان صوبہ ہرات کے 16 میں سے13 اضلا ع پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیں، اسکے علاوہ طالبان421 اضلا ع میں سے 223 اضلا ع کا کنٹرول رکھتے ہیں جن میں سے 116اضلا ع میں حکومت اور طالبان کے درمیان لڑائی جاری ہے، اور 68 پر کابل حکومت کا قبضہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی 34 میں سے 17 صوبائی دارلحکومتوں کو طالبان کی طرف سے براہ راست خطرہ ہے۔ حکومت اور طالبان کے درمیان لڑائی شدت اختیار کر گئی ہے، طالبان نے ہرات،ہلمند،اور قندھارکے گرد گھیرہ تنگ کر دیا ہے جس سے نہ صرف افغانستان بلکہ دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

غیر ملکی افواج کے انخلاء اور طالبان کی پیش قدمی کے نتیجے میں افغانستان کی سیکیورٹی کی صورتحال مزید بگڑ گئی ہے، لاکھوں لوگ گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے، اور شہری ہلاکتیں ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہیں، لیکن نہ طالبان اور نہ ہی حکومت کسی ایسے نقطے پر رضا مند ہو پا رہے ہیں جس سے افغانستان میں دیرپا امن ممکن ہو، جو کہ صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب کابل اور طالبان مزاکرات کی میز پر بیٹھیں، وگرنہ ممکنہ مفادات کاٹکراؤ مزید تشدد میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ موجودہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ افغان امن عمل ان افغانیوں پر منحصر ہے جوکہ ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے۔

Zahid Chaudhary – from King Edward Medical University is a freelance writer, author, and columnist. He works with multimedia channels, and his articles have been featured multiple times. He currently writes for Baaghitv.
Twitter ID: @zahidch01

Leave a reply