پاکستان کی سر زمین پر افغانستان سے لائے جانے والے غیر ملکی اسلحے کے استعمال کے ثبوت پھر منظرِ عام پر آگئے۔ پاک فوج دو دہائیوں سے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی دہشت گردی کے خلاف لڑ رہی ہے۔پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور یہ بات ثابت ہوئی افغان طالبان اور ٹی ٹی پی دونوں ایک ہی سکے کے دورخ ہیں، ان کا واحد مقصد پاکستان میں دہشتگردی کر کے انتشار پھیلانا ہے۔افغان طالبان جو ٹی ٹی پی کی مدد سے پاکستان میں دہشتگردی کے ذریعے معصوم لوگوں کو شہید کررہے ہیں مگر ان کے اپنے ملک میں حالات ابتر ہیں، افغانستان کے عوام خصوصاً اقلیتیں انتہائی مشکل حالات میں ہیں اور افغان طالبان کے مظالم کا شکار ہیں۔
29 جنوری کو شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز نے انٹیلی جنس آپریشن کیا ۔ آپریشن کے دوران فائرنگ کے نتیجے میں دہشتگرد نیک من اللہ کو جہنم واصل کیا گیا۔ اس دہشت گرد سے برآمد ہونے والا اسلحہ امریکی ساخت کا تھا جس میں M-4 Carbine بھی شامل تھی۔22 جنوری کو سیکیورٹی فورسز نے ضلع ژوب کے مقام سمبازا میں 7 دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔ ان دہشت گردوں سے برآمد ہونے والا اسلحہ غیر ملکی ساخت کا تھا جس میں M-16/A2، AK-47، سلیپنگ بیگز، ہینڈ گرنیڈز اور دیگر اشیا شامل تھیں۔19 جنوری کو ضلع میران شاہ میں پاک افغان سرحد پر بچی سر کے مقام پر میں سرحد پار کرنے والے 2 دہشت گردوں کو سیکورٹی فورسز نے ہلاک کیا۔ ان دہشت گردوں سے برآمد ہونے والا اسلحہ غیر ملکی ساخت کا تھا جس میں M16/A4 AK-47 بھی شامل تھیں۔31 دسمبر کو بھی خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ میں پاک افغان سرحد پار کرنے والے 3 دہشت گردوں کو سیکیورٹی فورسز نے جہنم واصل کیا۔ اِن دہشت گردوں سے بھی M4 Carbine (امریکی ساخت) اور دیگر اسلحہ بر آمد ہوا۔
جبکہ افغانستان کی خواتین کو افغان طالبان نے زندہ درگو کر رکھا ہے معاشرتی اقدارہوں یا اسلامی تعلیمات افغان طالبان دونوں پہلوؤں میں شدت پسندی کے علمبردار ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق اسکول جانے کی عمر میں 80 فیصد افغان لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں، یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق اس پابندی سے 10 لاکھ سے زیادہ لڑکیاں متاثر ہوئی ہیں۔رپورٹ کے مطابق افغانستان میں اکثریت پشتون آبادی ہے جو 52.4 فیصد بنتی ہے، اس کے بعد تاجک برادری سب سے زیادہ ہے جو 32.1 فیصد ہے، ہزارہ، ازبک، ترکمان اور دیگر برادریاں بہت کم تعداد میں موجود ہیں۔افغان طالبان تاجک، ہزارہ، ترکمان اور دوسری لسانی اقلیتوں کیخلاف نسلی تفریق رکھتے ہیں، افغان طالبان اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کیلئے وہ اقلیتوں کو مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
اِس سے پہلے 29 دسمبر کو بھی ضلع شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں دہشتگردوں سے M-4 Carbine، AK-47 اور گولہ بارود برآمد ہوا تھامیر علی آپریشن کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں راہزیب کھورے سمیت پانچ دہشت گرد مارے گئے۔ اس سے پہلے بھی متعدد بار پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں غیر ملکی ساخت کا اسلحہ استعمال کیا گیا۔کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے بھی انہی ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے فروری 2022 میں نوشکی اور پنجگور اضلاع میں ایف سی کیمپوں پر حملے کیے۔ 12 جولائی 2023 کو بھی ژوب گیریژن پر ہونے والے حملے میں بھی کالعدم ٹی ٹی پی نے امریکی اسلحہ استعمال کیا۔6 ستمبر 2023 کو جدید ترین امریکی ہتھیاروں سے لیس کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے چترال میں دو فوجی چیک پوسٹوں پر حملہ کیا۔4 نومبر کو میانوالی ائیر بیس حملے میں دہشت گردوں سے برآمد ہونے والا اسلحہ غیر ملکی ساخت کا تھا جس میں RPG-7، AK-74، M-4 اور M-16/A4 بھی شامل تھے۔
https://twitter.com/zarrar_11PK/status/175404934687669466012
دسمبر کو ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے درابن میں ہونے والی دہشت گردی میں بھی نائٹ گوگلز اور امریکی رائفلز استعمال کی گئیں۔افغان طالبان نے چھوٹے لسانی ونسلی گروہوں کو اقتدار میں بھی بہت کم نمائندگی دی ہے جو ان کے متعصبانہ رویے کی زندہ مثال ہے، افغان طالبان اور ٹی ٹی پی جو اپنی مذموم دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے مذہب کارڈ استعمال کرتے ہیں اب مکمل طورپر بے نقاب ہوچکے ہیں۔افغان طالبان اور ٹی ٹی پی شریعت اور دین اسلام کو خالصتاً اپنے مفادات کیلئے استعمال کر رہے ہیں، دراصل مذہب کی آڑ میں وہ اپنے مذموم مقاصد کیلئے نہ صرف اپنے لوگوں کا استحصال کر رہے ہیں بلکہ پڑوسی ممالک کیلئے بھی وبال جان بن چکے ہیں، افغان طالبان طاقت کو بڑھانے اور برقرار رکھنے کے لیے دین اسلام کی تشریح اپنے طور پر کر لیتے ہیں۔
افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کا بھارت کی جانب نرم رویہ بھی ان کے دوہرے معیار کو ظاہر کرتا ہے، افغان طالبان اور ٹی ٹی پی مغرب کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور مذہب کا استعمال کر کے پاکستان میں دہشتگردی کر رہے ہیں۔حالیہ اسرائیل حماس جنگ کے دوران افغان طالبان نے غزہ کے نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کیخلاف کسی قسم کا کوئی بیان نہیں دیا، افغان طالبان کی جانب سے حالیہ میڈیا پالیسی کے مطابق ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جس سے مغرب اور امریکا ناراض ہوسکتے ہیں۔افغان طالبان کی پالیسیاں کسی صورت ان کے شریعت کے دعوے کی عکاسی نہیں کرتی بلکہ طاقت اور کرسی کا کھیل واضح دیکھا جا سکتا ہے۔








