سینئر صحافی اور ایسوسی ایٹڈ پریس کی افغانستان اور پاکستان کے لیے نیوز ڈائریکٹر کیتھی گینن نے کہا ہے کہ افغان علاقے میں شدت پسند گروہوں کی موجودگی خطے کی سیکیورٹی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
انسٹیٹیوٹ آف ریجنل اسٹیڈیز (آئی آر ایس) کے تحت اسلام آباد میں منعقدہ تقریب ’جیوپولیٹیکل شفٹس اینڈ سیکیورٹی چینلجز‘ سے خطاب کرتے ہوئے کیتھی گینن نے کہا کہ ممکن ہے کہ افغانستان یہ نہ چاہتا ہو کہ شدت پسند گروہ اُس کی زمین استعمال کریں، لیکن اس کے باوجود وہ گروہ وہاں اب بھی موجود ہیں۔یاد رہے کہ کیتھی گینن 2014 میں افغانستان میں رپورٹنگ کے دوران زخمی ہوئی تھیں۔
پریس ریلیز کے مطابق کیتھی گینن نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کی بحالی کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے دونوں ممالک کے تعلقات میں حالیہ مثبت پیش رفت کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ برابری اور شراکت داری کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہوگا۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اسلام آباد کو اپنے اندرونی سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ایک مؤثر اور طویل مدتی حکمت عملی اپنانی ہوگی۔
کیتھی گینن کا کہنا تھا کہ چین کے افغانستان میں قدرتی وسائل پر اثر و رسوخ کی وجہ سے افغانستان اب بھی امریکی پالیسی سازوں کی نظر میں اہمیت رکھتا ہے۔اسی موقع پر پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی برائے افغانستان آصف درانی نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان ’جڑواں بھائیوں‘ کی مانند ہیں، جو ہمیشہ ایک دوسرے کی مدد کو تیار رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی سی پیک میں شمولیت دونوں ممالک کے سفارتی روابط میں بہتری کی علامت ہے۔
آصف درانی نے مزید کہا کہ پاکستان، افغانستان اور چین کے حالیہ سہ فریقی مذاکرات میں دہشت گردی کے خاتمے پر اتفاق ہوا، اور سیکیورٹی و قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان تعاون جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔پریس ریلیز کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات میں بہتری کے بعد پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آئی آر ایس کے صدر جوہر سلیم نے کہا کہ تمام چیلنجوں کے باوجود، خطے کی جغرافیائی سیاست اور مشترکہ مفادات نے دونوں ممالک کو دوبارہ قریب کیا ہے اور تعاون پر مجبور کیا ہے۔آئی آر ایس کے افغانستان پروگرام کے سربراہ آرش خان نے کہا کہ اگرچہ طالبان تنظیمی ڈھانچے، خواتین کی تعلیم اور بنیادی حقوق کے حوالے سے عالمی مطالبات کو تسلیم نہیں کر رہے، لیکن اس کے باوجود وہ چین، روس، پاکستان اور اقوام متحدہ سمیت دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات بہتر بنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
آرش خان نے مزید کہا کہ افغان عبوری حکومت نے حالیہ دنوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف عملی اقدامات کیے ہیں۔پاکستان کے سابق سفیر برائے افغانستان ابرار حسین نے تقریب میں کہا کہ اس وقت پاکستان کی اولین ترجیح افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کا قیام ہے۔
خواجہ سعد رفیق کی طبیعت اچانک ناساز، اسپتال منتقل
بلال بن ثاقب کی اہم امریکی سیاستدانوں اور ماہرین معیشت سے ملاقا تیں








