جنوبی ایشیا کے نازک پانی کے توازن میں مشترکہ دریاؤں پر کنٹرول ایک طاقتور حکمتِ عملی اور اثر و رسوخ کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر کابل دریا کے بیسن میں بھارت کی شرکت اور افغانستان میں پانی کے منصوبے پاکستان کی آبی سلامتی اور علاقائی استحکام کے لیے خطرے کی نشانی ہیں۔

بھارت افغانستان میں بند باندھنے اور پانی کی منتقلی کی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مالی اور تکنیکی معاونت فراہم کرتا رہا ہے، بعض منصوبے علانیہ اور بعض رہ راز کی بنیاد پر۔ مقصد یہ ہے کہ پانی کے بہاؤ کو قابو میں لاکر پاکستان پر طویل المدتی اثر ڈالنا جائے۔یہ رجحان بالکل ویسا ہی ہے جیسا بھارت نے انڈس واٹرز ٹریٹی (IWT) کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے مغربی دریاؤں پر یک طرفہ منصوبے شروع کیے۔ یوں پاکستان دونوں مشرق سے (اندس وادی کے مشرقی حصے) اور مغرب سے (افغانستان کے ذریعے) پانی کے بہاؤ پر دباؤ کا شکار ہے۔

حالیہ پیش رفت: طالبان اور بھارت کے درمیان ڈیمز کی پیشکش

افغانستان کے طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان مطقی کے حالیہ دورۓ دہلی کے دوران، بھارت سے تقریباً ۱ ارب ڈالر کی مالی معاونت کی درخواست کی گئی تاکہ نئے بڑے ڈیم بنائے جائیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے پانی کے بنیادی ڈھانچے کو بھارت اور افغانستان کی مشترکہ حکمتِ عملی کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔کچھ ایسے منصوبے جو افغانستان میں بھارت کی معاونت یا شرکت کے ساتھ چل رہے ہیں، یا منصوبہ بند ہیں

نامِ منصوبہ مقام خصوصیات اور امکانات

Shahtoot Dam کابل کے نزدیک، چار آسیاب ڈسٹرکٹ پینچ ہزار ہیکٹر اراضی کی آبپاشی، کابل کے پینے کے پانی کی فراہمی، بھارت کی مالی معاونت سے تقریباً US$236 ملین کا منصوبہ۔ Shah wa Arus Dam شکردارہ ڈسٹرکٹ بجلی پیدا کرنے اور چھوٹے پیمانے پر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت۔ ان منصوبوں سے کابل کا شہر پانی اور زراعت کے لحاظ سے فائدہ اٹھائے گا، مگر ساتھ ہی یہ پاکستان کے لیے پانی کی دستیابی کو کم کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔

خیبر پختونخوا (KP) کے لیے ممکنہ اثرات

کابل دریا کا پانی KP کی فصلوں، بجلی کی پیداوار، اور پینے کے پانی کے لیے بہت اہم ہے۔زراعت: پشاور، نوشہرہ، چارسدہ جیسے اضلاع میں آبپاشی نیٹ ورکس متاثر ہوں گے؛ گندم، مکئی، گنا وغیرہ فصلوں کی پیداوار کم ہونے کا خدشہ۔توانائی: بڑے ہائیڈرو پاور منصوبے مثلاً وارسک ڈیم پر پانی کی کمی سے بجلی کی پیداوار متاثر ہوگی۔پانی کی قلت سے شہری مراکز خاص طور پر پشاور میں صاف پانی کی فراہمی اور صفائی کے مسائل گہرے ہوتے جائیں گے۔ماحولیاتی اثرات: پانی کی کمی سے زمینی پانی کی سطح کم ہو جائے گی، آبی نظام متاثر ہوں گے، بنجر پن اور خشک سالی کے امکانات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان کا ممکنہ ردِ عمل: چترال ریور ڈائیورژن منصوبہ

پاکستان چترال دریا کو افغانستان میں ضم ہونے سے پہلے سوات بیسِن کی طرف موڑنے کی تجویز پر غور کر رہا ہے۔ اس منصوبے کی اہم خصوصیات میں شامل ہیں: تقریباً 2,453 میگا واٹ کی ہائیڈرو پاور پیداوار، آبپاشی میں بہتری، سیلاب کنٹرول اور ذخیرہ آب بڑھانا۔ چترال دریا دراصل کابل دریا کی شروعاتی شاخ ہے؛ اگر اس کا بہاؤ افغانستان میں جانے سے پہلے موڑا جائے تو پاکستان کو پانی کے بہاؤ پر کچھ کنٹرول مل سکتا ہے۔

پاکستان کی قانونی اور سفارتی صورتحال

پاکستان نے عالمی عدالتِ ثالثی (Court of Arbitration) میں آندس واٹرز ٹریٹی کے تحت بھارت کے بعض منصوبوں کی تقسیم اور ڈیزائن پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ حکومت پاکستان ہائڈرو منصوبوں کو تیز رفتاری سے مکمل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ بھارت کے ممکنہ یک طرفہ اقدامات کا اثر کم کیا جا سکے۔ یہ معاملہ محض پانی کی تقسیم کا نہیں بلکہ حکمتِ عملی، طاقت اور علاقائی اثر و رسوخ کا ہے۔ اگر بھارت اور افغانستان مل کر کابل دریا کے بہاؤ کو مناسب مشاورت اور بین الاقوامی قواعد کے بغیر کنٹرول کریں تو پاکستان کے شمال مغرب خصوصاً خیبر پختونخوا کے وسائل، معیشت اور عوام کی فلاح پر سنگین نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کی حکمت عملی میں پانی کے موافق منصوبے جیسے چترال ریور ڈائیورژن ضروری ہیں، مگر انہیں عملی اور قانونی بنیادوں پر مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ علاقائی مکالمہ، معاہدے کی پابندی، ماحولیاتی اثرات کا جائزہ، اور مشترکہ پانی کے منصوبوں میں شفافیت ہی وہ راستہ ہے جو کشیدگی کو کم کر سکتا ہے اور سب کے مفاد میں ہوگا۔

بہاولنگر میں پولیس کی بڑی کارروائی، اے کیٹگری کا خطرناک اشتہاری ملزم گرفتار

Shares: