طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلی مرتبہ افغانستان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نئی دہلی کے دورے پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ دورہ معزول اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے چار سال بعد بھارت اور طالبان انتظامیہ کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے کی سب سے بڑی مثال قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ دورہ اُس وقت ہو رہا ہے جب پاکستان دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑ رہا ہے اور مسلسل بھارتی حمایت یافتہ دہشت گرد نیٹ ورکس کو بے نقاب کر رہا ہے۔ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے حالیہ مہینوں میں متعدد کارروائیوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی "را” سے منسلک گروہوں کے خلاف شواہد حاصل کیے ہیں۔

افغان وزیرِ خارجہ کو رواں ماہ کے آغاز میں نئی دہلی کا دورہ کرنا تھا، تاہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی جانب سے عائد سفری پابندیوں کی وجہ سے یہ دورہ ملتوی ہوگیا تھا۔ بعد ازاں یو این ایس سی کی 1988 کمیٹی نے 30 ستمبر کو انہیں 9 سے 16 اکتوبر تک بھارت جانے کی عارضی اجازت دے دی،طالبان کے اکثر رہنماؤں پر اب بھی بین الاقوامی پابندیاں عائد ہیں، اور بیرونِ ملک سفر کے لیے انہیں اقوام متحدہ سے خصوصی اجازت لینا پڑتی ہے۔

کابل میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد بھارت نے ابتدا میں محتاط رویہ اختیار کیا، تاہم گزشتہ دو برسوں میں نئی دہلی نے خاموش سفارتی رابطوں کے ذریعے طالبان انتظامیہ سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ افغانستان میں "انسانی امداد” اور "عوامی روابط” کو فروغ دے رہا ہے، مگر تجزیہ کاروں کے مطابق اس کے پسِ پردہ پاکستان کے اثر و رسوخ کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اسی سلسلے میں بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے 15 مئی 2025 کو امیر خان متقی سے فون پر بات کی تھی، جو طالبان کے دورِ حکومت میں بھارت اور افغانستان کے درمیان اب تک کا سب سے اعلیٰ سطحی رابطہ تھا۔

پاکستان کے سفارتی و دفاعی حلقے اس دورے کو افغانستان اور بھارت کے ممکنہ گٹھ جوڑ کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔بھارت کا جنگی جنون کھل کر سامنے آ رہا ہے،بھارت ایک جانب پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں تخریبی نیٹ ورکس کو فنڈنگ فراہم کر رہا ہے، جبکہ دوسری جانب طالبان حکومت کو اپنے قریب لا کر ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانے افغان سرزمین پر موجود ہیں اور کابل انتظامیہ نے اب تک ان کے خلاف کوئی عملی کارروائی نہیں کی۔

ایک جانب پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھارتی نیٹ ورکس اور افغان سرزمین سے ہونے والی دراندازی کا سامنا کر رہا ہے، تو دوسری جانب بھارت اور طالبان کے بڑھتے رابطے اسلام آباد کے لیے نئے سفارتی اور سیکیورٹی خدشات کو جنم دے رہے ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق آنے والے ہفتے اس حوالے سے انتہائی اہم ہوں گے، کیونکہ اگر بھارت اور افغانستان کے درمیان باضابطہ روابط مضبوط ہوتے ہیں تو اس کے براہِ راست اثرات پاکستان کے داخلی امن و استحکام پر پڑ سکتے ہیں۔

Shares: