طالبان وزیر کا ٹی وی پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا بیان
افغانستان حکومت کے  ایک وزیر نے ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں یہ بیان دیا ہے کہ تحریک طالبان افغانستان   اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں رکھتی۔
طالبان حکومت کے اس بیان پر ردعمل سامنے آیا ہے، خاص طور پر ان مسائل کی روشنی میں جو افغان خواتین کی تعلیم، خواتین کے حقوق اور جدید تعلیم کے حوالے سے موجود ہیں۔افغان وزیر نے کہا، "ہم عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے تیار ہیں، بشمول اسرائیل کے ساتھ۔” ان کے اس بیان نے کئی سوالات کو جنم دیا، خاص طور پر یہ کہ طالبان کی حکومت کی پالیسیوں میں کس حد تک تبدیلی آرہی ہے۔ایک طرف افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی، خواتین کا بغیر پردے کے گھروں سے نکلنے پر پابندی ،دوسری جانب اسرائیل جیسے ملک جو غزہ میں انسانیت کا قتل عام کر رہا ہے کو افغان حکومت تسلیم کرنے کو تیار ہے،
افغان وزیر کا یہ بیان اس وقت آیا ہے جب افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیاں اور خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔افغانستان میں 87 فیصد افغان لڑکیوں اور خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جب کہ 70 فیصد خواتین پولیس افسر اور اہلکاروں کو بھی جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کی یہ دوہری پالیسی ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال پر تشویش کا باعث بن سکتی ہے۔ جبکہ ایک طرف بین الاقوامی تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے اشارے دیے جا رہے ہیں، دوسری طرف داخلی مسائل اور خواتین کی تعلیم میں رکاوٹیں موجود ہیں۔مختلف انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ طالبان کو اپنے وعدوں کی پاسداری کرنی ہوگی تاکہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جا سکیں۔
تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم پرپابندیاں نہ صرف خواتین کی ترقی کو روکتی ہیں بلکہ پورے معاشرے کی ترقی پر بھی منفی اثر ڈالتی ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کو محدود کرنا ایک ایسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو جدید دور کے تقاضوں کے خلاف ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر اس مسئلے پر فوری توجہ نہ دی گئی تو یہ ایک بڑی معاشرتی بحرانی صورت حال پیدا کر سکتا ہے








