افغانستان کی خانہ جنگی اور مودی پر سکتہ، تحریر: رانا عزیر

0
124

افغانستان کی خانہ جنگی اور مودی پر سکتہ، تحریر: رانا عزیر

افغانستان میں اس وقت فیصلہ کن جنگ چھڑی ہوئی ہے اور سپرپاور ستمبر ۲۰۲۱ تک یہاں سے چلا جائے گا، لیکن اس سب میں ایک بات قابل غور ہے کہ امریکی فو جیں یہاں سے جارہی ہیں لیکن امریکہ یہاں ہی رہنا چاہتا ہے، عمران خان کو بیش بہا آفرز دی گئیں، لیکن پاکستان کی ریاست کی پالیسی یہ تھی اب کی بار کسی دوسرے ملک کی جنگ کو اپنے سر نہیں لینا، ہم نے اپنا بہت نقصان کرلیا ہے۔ یہ امریکہ کیلے بڑا تکلیف دہ مرحلہ ہے، کیونکہ پہلے ادوار میں پاکستان ایک فون کال پر ڈھیر ہوتا آیا ہے، اور ہم چند ٹکوں کی خاطر بکتے آئے ہیں۔ اب امریکہ کا کیا پلان ہے؟ وہ پاکستان سے اس کا بدلہ تو لے گا، مگر کیسے؟
افغان طالبان کابل کے قریب پہنچ گئے ہیں وہ کبھی بھی غنی حکومت کا تختہ الٹ سکتے ہیں، تقریبا ۴۰ ڈسڑکٹ پر قابض ہوگئے ہیں، اس ساری صورتحال کے اندر تشویشناک مرحلہ پاکستان کے لئے ہے کہ یہ سب کچھ پاکستان پر الزام لگا کر چھڑھ دوڑنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ دنیا یہ حقیقت جانتی ہے کہ افغان طالبان کو مزاکرات کی میز پر لانا کوئی آسان کام نہیں تھا، یہ سب کچھ پاکستان کی وجہ سے ممکن ہوا۔ اس سارے عمل میں پاکستان کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ پاکستان نے بھارت کو اس سارے عمل میں شامل نہیں ہونے دیااور پاکستان دنیا کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوگیا تھا کہ بھارت افغانستان میں امن لانے کا خواں نہیں ہے۔ کیونکہ بھارت افغانستان کی سرزمین کو ہمیشہ پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ کی ڈو مور کی پالیسی اور پاکستان سے ڈرون حملوں کیلے فوجی اڈے اور فضائی حدود مانگنا یہ بھارتی لابی کے زیر اثر آتی ہے جو کہ نہ تو افغانستان میں امن چاہتا ہے اور نہ پاکستان کو ترقی کرنا دیکھنا چاہتا ہے۔ روس سے افغان جنگ کے خاتمے کے بعد جیسے امریکہ نے پاکستان کو تنہا چھوڑدیا تھا اور افغانستان کی خانہ جنگی کے اثرات سارے پاکستان پر آئے تھے۔ امریکہ اب پھر یہی سب کرنا چاہتا ہے لیکن اب خطے کی صورتحال مختلف ہے کیونکہ اب خطے میں نئی عالمی طاقت چین کی شکل میں موجود ہے اور امریکہ اس لیے افغانستان کو چھوڑکر جارہا ہے کہ چین کو افغانیوں کے ہاتھ مشکل میں ڈالا جائے۔ یہ بات ساری دنیا جانتی ہے افغان سیکورٹی فورسز اور پولیس افغانستان میں امن قائم نہیں کرسکتی، خصوصا افغان طالبان ۷۰ فیصد علاقوں پر قابض ہیں۔ تو امریکہ ان کی ٹریننگ کیلے قطر سے فوجی اڈے مانگ رہا ہے اور وہاں امریکہ کی مشرق وسطی کی سب سے بڑی ائیر بیس موجود ہے۔ وقت آگیا ہے حکومت پاکستان، روس، چین اور ایران ایسا لائحہ عمل تیار کریں جس سے خطے میں پائیدار امن قائم ہو ا۔ گو کہ اس بات کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے امریکی انخلا کے بعد یا اس سے پہلے اگر ضرورت پڑی تو چینی، روسی فورسز افغانستان جاسکتی ہیں، لیکن امریکہ ترکی کو یہاں لانے کی تیاریاں کر رہا ہے کیونکہ ترکی نیٹو کا حصہ ہے۔ چین خود کو بلاوجہ جنگ میں نہیں دھکیلے گا اور دوسری جانب افغان طالبان کسی غیر ملکی افواج کو اپنی سرزمین پر نہیں دیکھنا چاہتے

امریکہ بھارتی لابی کے زیر اثر آرہا ہے وہ افغانستان کو کسی صورت کوری ڈور نہیں بنے دے سکتا اور اس کا براہ راست اثر پاک امریکہ تعلقات پر آئے گا اور بھارت پاکستان پر پابندیاں لگوانے کیلے سرگرم ہے اور وہ اقوام متحدہ سے چند ٹکوں کے عوض امریکہ کو استعمال کرکے پاکستان کے خلاف رپورٹ شائع کروارہا ہے کہ پاکستان، پاک افغان بارڈر پر دہشتگردوں کو پناہ دے رہا ہے اور انھیں افغانستان میں بھارتی انسٹالیشیز پر حملوں کیلے استعمال کر رہاہے لیکن ایسا کر کے بھارت خود اپنے پاوں پر کلہاڑی مار چکا ہے۔ اب بھارت افغان طالبان کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے پاکستان کے بھی پاوں پکڑنے کیلے بھی تیار ہے اور وہ کشمیر کی خصوصی حثیت بحال کرنے کیلے بھی تیار ہے لیکن یہ سب وہ اپنے مفاد کیلے کر رہا ہے کیونکہ مودھی کی ساری الیکشن کمپین کشمیر کے خلاف رہی ہے وہ ایسا کرکے ہندوں کو اپنا قاتل نہیں بنوانا جاہتا۔
لیکن لب لباب یہ ہے کہ بھارت کی نہ صرف اب افغانستان سے چھٹی ہو رہی ہے اب وہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشتگردی کرنے کیلے استعمال نہیں کرسکے گا اور یہی چیز مودھی سرکار کو کھائی جارہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی دنیا پاکستان کے کردار کو سراہے کہ پاکستان دنیا میں امن لانے کا خواہاں ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ ملکر لائحہ عمل طے کرے وگرنہ یہ افغانستان کی خانہ جنگی کس کس کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ اورعالمی قوتوں کا مرکز اس وقت پاکستان بنا ہوا ہے ۔

Leave a reply