سابق وزیر داخلہ اور چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ریفارمز (آئی آر آر) سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ صدر غنی کی انتظامیہ کی نااہلی کے علاوہ کوئی بھی ان کی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہ تو پاکستان اور نہ ہی کسی اور نے افغانستان میں یہ جنگ شروع کی تھی بلکہ امریکہ نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملہ کیا حالانکہ افغانستان سے کوئی بھی اس افسوسناک واقعے میں ملوث پایا نہیں گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف یہ نام نہاد جنگ 20 سال تک بغیر کسی نتیجہ اور کامیابی کے جاری رہی اور اس جنگ کا سب سے بڑا نقصان پاکستان کو ہوا جس میں ہمارے 80 ہزار فوجی اور شہری شہید ہوئے اور ملکی معیشت تباہ ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگ میں سب نے سیکھا کہ گولی کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ایک بھارتی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے جہاں سینیٹر رحمان ملک نے افغانستان میں پاکستان کے ملوث ہونے کے بھارتی الزامات کا منہ توڑ جواب دیا انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ افغانستان میں امن کا خواں اور انکے اندرونی مسائل کا سیاسی حل چاہتا ہے جو سب افغانیوں کو قابل قبول ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا قطر میں طالبان اور امریکی حکام کے درمیان مذاکرات کی وجہ سے ہوا تھا اور اب جب طالبان واپس آگئے ہیں تو عالمی برادری کو افغانستان میں امن کا موقع دینا چاہیے اگر طالبان کی نئی انتظامیہ قائم کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ بیس سالوں میں طالبان نے بہت کچھ سیکھا ہے اور وہ انسانی حقوق ، خواتین کے تعلیم کے حق اور مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے عالمی برادری کے تحفظات کا احترام کریں گے۔
سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ دوحہ معاہدے کے بعد ، صدر اشرف غنی کے پاس امریکہ کے ساتھ تعاون اور مشاورت سے انخلاء کی حکمت عملی بنانے کا موقع تھا تاکہ موجودہ انتشار کو بروقت ٹالا جا سکے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج کو بغیر کسی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے واپس بلا لیا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان پاکستان نے نہیں بنائے اور نہ ہی پاکستان نے داعش کو بنایا اور ہر کوئی جانتا ہے کہ طالبان ، القاعدہ اور پھر خطرناک دہشت گرد تنظیم داعش کو کس نے بنایا۔ انہوں نے کہا کہ کنڑ میں القاعدہ کے 25 ہزار ارکان ہیں اور 8000 جہادی شام سے بھی آئے ہیں اور بھارتی خفیہ ایجنسی اس کے بارے میں اچھی طرح جانتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھارت اور پاکستان دونوں سے غلطیاں ہوئیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ امن کی طرف آگے بڑھیں۔ انہوں نے کہا ، "میں نے مودی وار ڈاکٹرین کے نام سے کتاب لکھی ہے جو پوری دنیا میں پڑھا جا رہا ہے جس میں میں نے بہت سے حقائق کو بے نقاب کیا ہے اور میں تمام ہندوستانی دانشوروں کو مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ وہ مودی اور جنرل باجوہ دونوں کے ڈاکٹرائین پڑھیں اور موازنہ کریں کہ کون امن کی وکالت کرتا ہے۔سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ اسلام اور ہندو مذہب اور دیگر تمام مذاہب امن کا درس دیتے ہیں لہٰذا وہ وزیر اعظم مودی سے اپیل کریں گے کہ وہ کشمیریوں پر ظلم بند کریں اور کرفیو اٹھا کر انہیں امن کے ساتھ رہنے کا حق دیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ وزیر اعظم عمران خان کے مودی کے حوالے سے بیان سے متفق نہیں تھے جس میں انہوں نے اظہار کیا تھا کہ اگر مودی دوبارہ وزیراعظم بن گئے تو وہ کشمیر سمیت بھارت اور پاکستان کے درمیان تمام مسائل کو حل کریں گے۔
رحمان ملک نے کہا کہ ہندوستان پہلے دن سے پاکستان پر الزامات لگاتا رہا ہے اور جب مسٹر چدمبرم نے یہی الزامات لگائے تو میں نے پاکستان کے بھارت یا کشمیر میں مداخلت کے ثبوت مانگے وہ کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہ کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ بھارت بلوچستان کے ذریعے پاکستان کو سبق سکھائے گا ، اور اس کے بعد کلبھوشن یادیو سمیت کئی لوگ بلوچستان سے پکڑے گئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف سری لنکا اور دیگر ممالک میں لوگوں کو تربیت بھی دی اور حالیہ حملے جس میں 11 چینی انجینئروں کی ہلاکت ہوئی بھارت ملوث پایا گیا ہے۔سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ الزام تراشی کا وقت نہیں ہے اور دونوں ملکوں کو اپنی انا کو ایک طرف رکھنا چاہیے اور حقیقی مسائل کے حل کے بارے میں سوچنا چاہیے جس سے دونوں ممالک کے درمیان امن قائم ہو سکے۔ ایک سوال کے جواب میں رحمان ملک نے کہا کہ اب طالبان افغانستان میں حکومت بنانے جا رہے ہیں جو بھی ہو ، افغانستان کے لوگوں کی مرضی کو ترجیح دی جانی چاہیے تاکہ وہاں دیرپا امن قائم ہو۔ سینیٹر رحمان ملک نے اس بات کا اعادہ کیا کہ دونوں اطراف سے امن کی کوششیں ہونی چاہئیں اور وہ بھارت سے 11 دانشوروں ، صحافیوں اور ادیبوں کو دعوت دیں گے کہ وہ انکے خرچے پر پاکستان کا دورہ کریں تاکہ امن کا منصوبہ وضع کیا جا سکے۔