بیس سال تک افغانستان میں جو طالبان، امریکہ کی جان کے دشمن تھے اس کے ساتھ جنگ لڑتے رہے اب وہ امریکہ سے ہی رحم کی اپیل کر رہے ہیں سوچیں ایسا کیا ہوا کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی؟ آخر کیوں طالبان اپنے دعوے پورے کرنے میں ناکام رہے؟ اور اب افغانستان میں اصل صورتحال کیا ہے افغان عوام اپنا گزارہ کیسے کر رہی ہے؟ اور کیوں پاکستان افغانستان کے لئے ہر ایک فورم پر آواز اٹھا رہا ہے؟ وہ کون سا ایسا خطرہ ہے جو پوری دنیا کی نوجوان نسل کے لئے ایٹم بم ثابت ہو سکتا ہے؟
پاکستان میں افغانستان کی صورتحال پر غور کے لئے او۔ آئی۔ سی وزرائے خارجہ کا ایک غیرمعمولی اجلاس بھی بلایا گیا ہے جو کہ انیس دسمبر کو اسلام آباد میں ہوگا۔ تاکہ افغان عوام کی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اجتماعی کوششوں کو تیز کیا جائے عالمی برادری خاص کر کہ امریکہ کو افغانستان کی مدد پر راضی کیا جائے۔اور صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ خود طالبان حکومت نے بھی عالمی قوتوں کو پکارنا شروع کر دیا ہے کہ لاکھوں افغان شہریوں کو انکی مدد کی ضرورت ہے اس لئے رحم اور ہمدردی کی بنیاد پران کی مدد کی جائے۔طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر اللہ متقی نے اپنے ایک انٹرویو میں امریکا سے اپیل کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ افغانستان کے دس بلین ڈالر سے زائد منجمد فنڈز کو جاری کیا جائے کیونکہ جب تک فنڈز بحال نہیں ہوں گے تو طالبان کیسے دنیا کو اپنا کام دکھا سکیں گے۔امیر اللہ متقی نے یہاں تک بھی کہا ہے کہ طالبان حکومت کا امریکا سے کوئی جھگڑا نہیں ہے وہ تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ غیر مستحکم افغانستان یا کمزور افغان حکومت کا ہونا کسی کے مفاد میں نہیں۔اب اگر طالبان حکومت کے وزیر خارجہ اس طرح کے بیان دے رہے ہیں اور ساتھ ہی ہمارے اپنے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ اگرعالمی برادری نے افغانستان پر بروقت توجہ نہ دی تو وہاں ایک بڑا انسانی بحران جنم لے سکتا ہے۔
لیکن میں آپ کو بتاوں کہ افغانستان کے اندر انسانی بحران تو تصویر کا ایک رخ ہے لیکن واقعی اگر افغانستان پر اس وقت دنیا نے توجہ نہ دی تو یہ آنے والے وقت میں ایک ایٹم بم ثابت ہو سکتا ہے جو کہ ہماری آنے والی نسلوں کو تباہ و برباد کرنے کی وجہ بن سکتا ہے۔دراصل اس وقت ہو یہ رہا ہے کہ امریکہ کچھ معاملات کو لیکر افغانستان پر غصے میں ہے جس کی ایک چھوٹی سی مثال لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی ملازمتوں پرلگائی گئی پابندی ہے کہ طالبان حکومت کی جانب سے ساتویں اور بارہویں جماعت کی طالبات کو اسکول جانے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی ہے خواتین کو ان کی ملازمتوں پر واپس جانے سے کیوں روکا جا رہا ہے۔ جس پر طالبان حکومت کا یہ کہنا ہے کہ یہ سچ ہے کہ فی الحال بہت سی خواتین سرکاری ملازمین کو گھر میں رہنے کو کہا گیا ہے لیکن اس کی وجہ ہماری سخت گیر پالیسی نہیں بلکہ اسکولوں اور کام کی جگہوں پرشریعت کے تحت علیحدہ انتظامات کا نہ ہونا ہے۔ اور جہاں یہ انتظامات مکمل ہیں جیسے افغانستان کے چونتیس صوبوں میں سے دس صوبوں میں بارہویں جماعت تک لڑکیاں اسکول جا رہی ہیں۔ پرائیویٹ اسکولز بھی بغیر کسی رکاوٹ کے کام کر رہے ہیں اور صحت کے شعبے میں بھی سو فیصد خواتین کام پر واپس آ گئی ہیں۔ لیکن باقی جگہوں پر انتظامات کرنے اور کارکردگی دکھانے کے لئے ضروری ہے کہ طالبان حکومت کے پاس فنڈز ہوں بغیر فنڈز کے وہ کوئی بھی کام نہیں کر سکیں گے اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ آپ ایک انسان کے ہاتھ باندھ دیں اور پھر اس کو لڑنے کا کہیں۔اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ افغانستان کی آبادی اس وقت تقریبا تین کروڑ نوے لاکھ ہے جس میں سے آدھی آبادی پندرہ سال سے کم عمرنوجوانوں کی ہے۔ اور وہاں کی آبادی کا برا حصہ Poverty lineسے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔
اور جب کسی ملک میں غربت پھیلنا شروع ہو جائے تو آپ کو معلوم ہے کہ وہاں ہر طرح کی برائیاں جنم لینا شروع ہو جاتی ہیں جبکہ امن و امان کا پہلے ہی افغانستان میں کافی سنگین مسئلہ ہے۔اور اس سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ جو پوری دنیا کی آںے والی نسلوں کے لئے ایٹم بم ثابت ہو سکتا ہے وہ وہاں پر ہونے والی پوست کی کاشت اور ہیروئین کی برآمد ہے جو اس وقت عروج پر ہے۔ ہیروئین کے ساتھ ساتھ افغانستان میں جو ایک نئے نشے کا دھندہ شروع ہو چکا ہے وہ کرسٹل میتھ ہے۔ جس کا ایک سو کلو کا تھیلا جب افغانستان سے نکل کرکسی دور دراز ملک میں پہنچتا ہے تو اس ایک تھیلے کی قیمت دو ملین ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔افغانستان کے جنوب مغربی ضلع میں جہاں ایفیڈرا نامی بوٹی کاشت کی جاتی ہے جسے مقامی زبان میں اومان بھی کہا جاتا ہے وہاں تقریبا پانچ سو فیکٹریاں کام کر رہی ہیں جو روزانہ تین ہزار کلوگرام کرسٹل میتھ تیار کرتی ہیں۔پہلے طالبان کی جانب سے ایفیڈرا اگانے پر ٹیکس لگایا جاتا تھا۔ لیکن پھر اس کی کاشت پر پابندی کا اعلان کیا گیا لیکن اس پر کوئی خاص عمل درآمد نہیں ہوسکا۔بلکہ پابندی لگنے سے وہاں کے فیکٹری مالکان کو یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ میتھ کی قیمت کئی گنا بڑھ گئی ہے اور ان کا کاروبار خوب چمک اٹھا ہے۔ اس طرح اب جن فیکٹری مالکان نے یہ بوٹی اپنے گوداموں میں سٹور کی ہوئی ہے وہ آنے والے دنوں میں اس بوٹی سے کرسٹل میتھ بنا کر خوب پیسہ کما سکتے ہیں۔طالبان حکومت اس پابندی پر عمل درآمد کروانے میں کیوں ناکام رہی اس کی کئی وجوہات ہیں۔ بظاہر ایک سادہ سی وجہ تو یہ بھی ہے کہ ایفیڈرا کی کاشت پر اس وقت پابندی کا اعلان کیا گیا جب کسان فصل کاٹ چکے تھے اس وجہ سے پابندی پر عمل ہوا یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ اصل صورتحال اگلے سال جولائی میں سامنے آئے گی جب نئی فصل کی کاشت کا وقت ہو گا کہ اس وقت طالبان کی حکومت کاشتکاروں کو اس کی اجازت دے گی یا نہیں؟اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس وقت افغانستان کو پیسے کی اشد ضرورت ہے اور ان کے پاس پیسہ کمانے کا صرف ایک یہ ہی آسان طریقہ ہے۔افغانستان میں پوست کی کاشت سے جو ہیروئین تیار کی جاتی ہے دنیا بھر کی ڈیمانڈ کا تقریبا80 فیصد اسی سے پورا ہوتا ہے۔ افغانساتن میں ایسی لا تعداد فیکٹریاں موجود ہیں جو افیون سے ہیروئن بناتی ہیں اور ہر فیکٹری 60-70 افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ اور دوسری طرف اب جس رفتار سے میتھ تیار کی جا رہی ہے وہ ہیروئن کی تجارت کو بھی بہت پیچھے چھوڑ جائے گی۔
اور ایسا نہیں ہے کہ طالبان کو اس کے نقصانات کا علم نہیں ہے وہ یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ وہ ان برے حالات میں پیسہ کیسے کمائیں؟اورایسی صورتحال میں جب امریکہ سمیت تمام عالمی اداروں نے افغانستان کے فنڈز روکے ہوئے ہیں کوئی ان کی مدد کو سامنے نہیں آرہا دوسری طرف افغانستان میں کاشتکاروں کو خشک سالی اور پانی کی کمی کا بھی سامنا ہے تو سوچیں کہ ان کے پاس کیا حل باقی بچتا ہے۔ہو سکتا ہے آپ میں سے بہت سے لوگ سوچیں کہ وہاں کاشتکار کوئی اور فصل کیوں کاشت نہیں کر لیتے؟تو اس میں مشکل یہ ہے کہ وہاں پر کوئی اور فصل کاشت کرنے کے لیے پانی کے کنویں کھودنے پڑتے ہیں۔ اگر بھنڈی یا ٹماٹر کاشت کریں تو ان کاشتکاروں کو کنویں کی آدھی قیمت بھی وصول نہیں ہوتی۔ایسی صورتحال میں آپ سوچیں کہ طالبان حکومت پابندی پر کیسے عمل درآمد کر وا سکتی ہے۔ بلکہ اس وقت تو وہاں اتنی آسانی ہو گئی ہے کہ پابندی کے اعلان سے قیمت بھی بڑھ گئی ہے اور وہ منشیات ڈیلر جو پہلے خفیہ طور پر کرپٹ افغان اہلکاروں کو رشوت دے کر مال فروخت کرتے تھے اب کھلے عام بازاروں میں سٹال لگا کر منشیات فروخت کر رہے ہوتے ہیں۔
کابل میں طالبان کے ترجمان بلال کریمی نے بھی حال ہی میں یہی بیان دیا ہے کہ اس وقت طالبان کسانوں کے لیے متبادل مواقع تلاش کر رہے ہیں اور جب تک ھم لوگوں کو کچھ متبادل فراھم نہیں کر لیتے ھم انھیں کیسے منع کر سکتے ہیں۔
اس لئے بین الاقوامی برادری کو کچھ سوچنا چاہیے افغان لوگوں کے لئے نہ صرف جلد از جلد فنڈز ریلیز ہونے چاہیں بلکہ ان کی مدد بھی کی جانی چاہیے۔ کیونکہ اگر ان کی مدد نہ کی گئی اور منشیات کی کاشت پر بھی پابندی لگا دی تو افغان عوام بھوکے رہ جائیں گے وہ اپنے خاندانوں کو کیا کھلائیں گے اور دوسری صورت میں اگر منشیات کی کاشت کا سلسلہ اسی طرح سے چلتا رہا تو یہ پوری دنیا کے لئے ایک ایٹم بم ثابت ہوگا اور اس کی لپیٹ میں ہماری نوجوان نسل آئے گی جبکہ افغان نسل تو پہلے ہی اس کی لپیٹ میں آچکی ہے وہاں سڑک کنارے جگہ جگہ نوجوان ٹولیوں میں نشہ کرتے نظر آتے ہیں۔ طالبان اکثروبیشتر ان کو اٹھا کر Rehabilitaion centreبھی چھوڑ کرآتے ہیں لیکن وہ نوجوان پھر واپس آ جاتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت منشیات کی پیداوار اتنی زیادہ ہو رہی ہے کہ وہاں ہیروئین اور میتھ بہت زیادہ سستی بھی ہے۔ اس لئے اس ایٹم بم کو ناکارہ کرنے کے لئے امریکہ اور عالمی طاقتوں کو جلد از جلد اس مسئلہ کا کوئی نہ کوئی حل نکالنا ہوگا تاکہ اپنی نوجوان نسلوں کو بچایا جا سکے۔