افغانستان میں ذلت آمیز شکست ۔ جو کہتے تھے پتھروں کے دور میں دھیکل دیں گے ہوئے ذلیل ورسوا !!!

0
43

افغانستان کے حوالے سے اتنی خبریں ہیں کہ ہر پانچ منٹ بعد خبر پرانی ہو جاتی ہے ۔ ہاں البتہ ایک قدر ان خبروں میں مشترک ہے کہ یہ خبریں اشرف غنی ، مودی اور جوبائیڈن کی نیندیں حرام کرنے کے لیے کافی ہیں ۔

۔ اشرف غنی کے گرد تو ویسے ہی گھیرا روز بروز تنگ ہوتا جا رہا ہے ۔ پر اب تو امریکہ کو بھی لالے پڑے ہوئے ہیں کہ پتہ نہیں جب طالبان کابل پر قبضہ کریں گے تو کابل میں اس کے سفارت خانے کا کیا حشر کیا جائے گا ۔ مودی کی بات کی جائے تو بھارت کی تنصیبات اور جنگی آلات سمیٹے اور لپیٹے جا رہے ہیں۔ کہیں ہیلی کاپٹر تو کہیں بھارت کے جنگی جہاز طالبان قبضے میں لے رہے ہیں ۔ اب اس غم میں امریکہ ہو یا بھارت یا پھر ان کی کٹھ پتلی غنی حکومت سب پاکستان کو مودر الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ ہمارے وجہ سے یہ افغانستان میں رسوا ہوگئے ذلیل وخوار ہوگئے ۔

۔ ایک لمحے کے لیے چلیں ایسا مان بھی لیں تو پھر بھی امریکہ ، بھارت اور نیٹو ممالک کو ڈوب مرنا چاہیئے کہ پاکستان ہاتھوں دنیا کی سپر پاورز کو شکست ہوگی ۔۔ سی آئی اے ، ایم آئی 6 ، موساد ، را ۔۔۔۔ ان سب ایجنسیوں کو بھی ڈوب مرنا چاہیئے اگر ایسا ہے تو ۔۔ ان تمام ممالک کی فوج کو بھی چوڑیاں پہنچ لینی چاہیئے ۔ اور ان تمام فرسٹ ورلڈ ممالک کی عوام کو اپنی حکومت کو گریبان سے پکڑ لینا چاہیے کہ انھوں نے ہم کو دنیا میں بدنام کروا دیا ۔۔ کہ بیس سالہ جنگ ، 2.3ٹریلین ڈالرز اور دو لاکھ چالیس ہزار ہلاکتوں کے باوجود افغان حکومت بیس دن بھی طالبان کے سامنے نہ کھڑی ہوسکی ۔

۔ اور اگر اس سب کے پیچھے پاکستان ہے تو پھر امریکہ سمیت اس کے تمام حواریوں کو کسی صورت سپر پاور رہنے کا حق نہیں ہونا چاہیئے ۔ جو ایک ملک کی سازش کی وجہ سے ٹریلین ڈالر خرچ کر، بیس سال لگا کر بھی جنگ نہیں جیت سکے ۔ میں آپکو بتاوں کہ یہ سب مغربی میڈیا کے ذریعے پاکستان مخالف بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اور اپنی شکست کو مان لینے کی بجائے ۔ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی ایک مذموم سازش ہے ۔ سچ یہ ہے کہ امریکہ جو ٹریلین ڈالر افغانستان میں لگا کر گیا ہے وہ سب ہوا ہو چکا ہے ۔ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے جو افغان فورسز کو ٹریننگ دی ۔ وہ ایسی ہے کہ وہ صرف سرنڈر کرنا جانتے ہیں ۔ ابھی تک تین لاکھ تو دور کی بات کسی بھی جگہ تین ہزار افغان فوجی بھی طالبان کا سامنا کرتے دیکھائی نہیں دیے ۔ ۔ سچ یہ ہے کہ افغان حکومت اور افغان فوج کرپشن میں نمبرون ہے ۔ جو اسلحہ اور پیسہ ان کو ملتا تھا ۔ وہ افغان فوج تک پہنچتا ہی نہیں تھا ۔ یہ بابر سے باہر ہی بیچ دیا کرتے تھے ۔ اب وہ طالبان کے پاس جاتا تھا کہاں جاتا تھا یہ کام سی آئی اے کا تھا وہ پتہ لگاتی ۔کہ americi tax payerکا پیسہ کہاں غائب ہورہا ہے ۔ ۔ سچ یہ ہے کہ طالبان جس بھی شہر جا رہے ہیں کوئی مذمت ہوہی نہیں رہی ہے ۔ اشرف غنی حکومت کے گورنر یا تو دوسرے ملکوں میں بھاگ رہے ہیں یا پھر طالبان سے معاہدے کررہے ہیں اور جان بخشی کروا رہے ہیں۔

۔ سچ یہ ہے کہ افغان طالبان نے بڑے شہروں پر قبضہ کیا تو مزاحمت ہی نہ ہوئی اور ان کی مقامی انتظامیہ یہ کہتے ہوئے بری الذمہ ہوتی گئی کہ علاقے کے معززین نے خون ریزی سے بچنے کیلئے فوج ہٹانے کی درخواست کی تھی جو قبول کر لی گئی۔ ۔ پھر افغانستان کے قائم مقام وزیر خزانہ تو ملک سے فرار ہوئے ہی ہیں ۔ یہاں تک وہ احسان فراموش نائب صدر امراللہ صالح جیسے لوگ جو صبح شام پاکستان کے خلاف غلاظت بکتے تھے ۔ اب وہ بھی دم دبا کر کابل سے بھاگ چکے ہیں ۔ اب اطلاعات ہیں کہ وہ تاجکستان سے بیٹھ کر ویڈیو پیغام میں آئندہ کا لائحہ عمل دیں گے ۔ یعنی جلتے ہوئے جہاز سے جیسے چوہے نکل نکل کر بھاگتے ہیں وہ صورتحال بنی ہوئی ہے ۔

۔ سچ یہ ہے کہ ہر شہر میں طالبان کا استقبال کیا جا رہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کرپٹ افغان حکومت سے لوگ تنگ تھے ۔ افغان صحافی ہیں bilal sarwayانھوں نے رپورٹ کیا ہے کہ طالبان ہرات کی 207ظفر کارپس میں مہمانوں کی طرح داخل ہوئے ، چائے پی ، قبائلی عمائدین ساتھ تھے ۔ ایک بھی گولی نہیں چلی اور سب نے سرنڈر کر دیا ۔۔ اس صورتحال میں مغرب اور بھارت گھبراہٹ میں اپنے لوگوں کو تو افغانستان سے نکال ہی رہے ہیں ۔ ساتھ ہی مغربی میڈیا اور بھارتی میڈیا بھی بوکھلاہٹ کا شکار دیکھائی دیتا ہے ۔ ایک ایسے انجانے خوف کا شکار دیکھائی دیتا ہے کہ طالبان جب آئیں گے تو پتہ نہیں کیا کریں گے ۔ اب اس ڈر میں وہ مفروضوں پر مبنی ایسی خبریں پھیلا رہے ہیں کہ لوگوں کو گمراہ کیا جائے ۔ اب دو خبریں ہیں ایک کہ طالبان کی تیز پیش قدمی کے پیش نظر امریکہ نے تین ہزار اہلکار افغانستا ن بھیجنے کا فیصلہ کر لیاہے ۔ ان تمام اہلکاروں کو اگلے24سے 48 گھنٹوں کے دوران کابل کے حامد کرزئی ایئر پورٹ پر تعینات کیا جائے گا ۔ ساتھ ہی اگر افغانستان میں ایئر پورٹ کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہوئی تو ایک انفینٹری بریگیڈ کویت میں بھی تعینات کیا جائے گا ۔ جبکہ امریکی فوج اور ایئر فورس کا ایک ہزار اہلکاروں پر مشتمل مشترکہ یونٹ قطر میں بھی تعینات کیا جائے گا۔

۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو آسان الفاظ میں یہ سمجھیں کہ امریکہ اور طالبان کا معاہدہ ختم ۔ مجھے فی الحال اس خبر کی خبریت پر شک ہے ۔ کیونکہ امریکہ اس کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ ہاں اشرف غنی اور بھارت کو وقتی خوشی اور حوصلہ دینے کے لیے یہ خبر ٹھیک لگتی ہے ۔ یا کیا پتہ امریکہ اشرف غنی کو تسلی دینے کی کوشش کی ہو کہ ڈٹے رہو اور مرتے رہو ۔ دوسری جانب یہ خبریں بھی چل رہی ہیں کہ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ اور سیکرٹری آف ڈیفنس نے اشرف غنی سے بات کی ہے کہ وہ مستعفی ہوں تاکہ طالبان کو مذاکرات کے لیے راضی کیا جا سکے ۔

۔ تو جس چیز سے میں آغاز کیا تھا کہ گروانڈ پر تو امریکہ ، بھارت ، نیٹو اور تمام اتحادی ممالک افغانستان میں ہار چکے ہیں اور اب صرف ایک بیانیے کی جنگ جاری ہے ۔ اور ان سب کا مودا ایک ہی ہے کہ افغان جنگ ہاری ہے تو پاکستان کی وجہ سے ۔۔۔ یہ سب ایک ڈھکوسلا ہے ۔ فریب ہے ، دھوکہ ہے اور پاکستان کو بدنام کرنے کی ایک سازش ہے ۔۔ صورتحال یہ ہے کہ طالبان مزید پانچ صوبائی دارالحکومتوں غزنی، ہرات،قلعہ نو ،لشکر گاہ اور قندھار پر قبضہ کرچکے ہیں ۔ ۔ بغیر مزاحمت پسپائی پر افغان حکومت نے غزنی کے اپنے ہی گورنر محمد داؤد لغمانی کو کابل آتے ہوئے گرفتار کر لیا ہے ۔ افغانستان کا تیسرا بڑا شہر اور صوبائی دارالحکومت ہرات بھی طالبان کے قبضے میں ہے ۔ طالبان ٹوٹل انیس کے قریب صوبوں پر قبضہ کر چکےہیں ۔

۔ حالات یہاں تک بگڑ چکے ہیں کہ صدر اشرف غنی نے دارالحکومت کابل کو بچانے کیلئے خطے کے ممالک اور غیرقانونی مسلح ملیشیا گروپوں سے بھی التجا کر رہے ہیں۔ کہ آؤ اور ہماری مدد کر دو ۔ ۔ اس وقت افغان حکومت ، امریکہ اور بھارت کے لیے ہر چیز الٹ سمت میں جا رہی ہے اور طالبان امریکہ کی توقع سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ افغانستان پر قابض ہو رہے ہیں۔ ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی روکنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔۔ شمال سے مغرب ہر طرف آپکو طالبان کا ہی جھنڈا دیکھائی دے گا ۔ یہاں تک اسماعیل خان جیسے وار لارڈ بھی طالبان کے ہاتھ پر بیعت کرتے اور سرنڈر کرتے دیکھائی دے رہے ہیں ۔ ۔ افغان فوج کی پسپائی کے مناظر کو دیکھیں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر وہ تحریک نہیں۔وہ جذبہ نہیں۔ جو طالبان کے جذبے کا مقابلہ کر سکے۔ ۔ افغان فوجی مرنا نہیں چاہتے ۔ طالبان کو دیکھتے ہی دوڑیں لگا دیتے ہیں۔ یہ بات ہے بھی بالکل درست ۔ آخر کیوں وہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کی کٹھ پتلی حکومت کیلئے اپنی جان کی قربانی دیں۔

۔ عجیب بات ہے کہ صدر اشرف غنی تین لاکھ پچاس ہزار فوجیوں پر مشتمل طاقت کے ہوتے ہوئے پرانے وارلارڈز سے التجائیں کر رہے ہیں کہ میدان میں اتریں اور حکومت کو بچائیں۔ وہ عوام میں بھی جہاں ممکن ہے۔ اسلحہ تقسیم کر رہے ہیں اور تلقین فرما رہے ہیں کہ طالبان کیخلاف اٹھ کھڑے ہوں۔۔ سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی فوج وہ بھی مغربی طاقتوں کی تربیت یافتہ اور ان کی مسلح کردہ کہاں گئی؟ ۔ مغربی سٹریٹجک منصوبہ سازوں، دفاعی مفکروں اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے دانشوروں کو یہ چیزیں اور سوالات اپنی حکومتوں سے پوچھنے چاہیئے ۔ نہ کہ ہم کو موردالزام ٹہرانا چاہیئے ۔۔ ان کو پوچھنا چاہیے کہ بیس سالہ مغربی جنگ نے افغانستان میں کتنے لاکھ لوگوں کو بے گھر کیا؟

۔ چلیں لاکھوں افغانوں کی ہلاکت کی خبروں کی صداقت پرشک کیا جا سکتا ہے۔ لیکن خود امریکی ذرائع چالیس ہزار طالبان کو موت کے گھاٹ اتارنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں عام شہری اس جنگ میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ رات کو دیہاتیوں کے گھروں میں گھس کر حملہ کرنے اور چادر و چاردیواری کی روایتی حرمت کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں کو کیا افغان بھول پائیں گے؟ ۔ اور کیا کابل میں متعین امریکہ کے اشاروں پہ ناچنے والوں کو افغانستان میں خون خرابے کا ذمہ دار قرار نہیں دیں گے؟ ۔ میرے خیال سے افغان حکومت کو بات اس وقت سمجھ آ جانی چاہئے تھی جب صدر ٹرمپ نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ خود براہ راست طالبان سے مذاکرات کریں گے۔ کابل کی طرف سے سہما سا احتجاج اور درخواستیں کہ دیکھیں ۔۔۔۔ہمارا کیا بنے گا۔ امریکہ کے فیصلے کو تبدیل نہ کر سکے۔

۔ تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ صدر اشرف غنی کو ملا۔ وہ بھی تو طالبان سے بات چیت کو معنی خیز بنا سکتے تھے۔ پر اقتدار کی خواہش اندھا کردیتی ہے۔ آخری وقت تک لڑنے کی جرأتمندی کے بیکار نعرے گھڑنے سے زمینی طاقت کا توازن تو نہیں بگاڑا جا سکتا۔

۔ امن معاہدہ ہو یا طالبان کابل کا گھیرائو کرکے دبائو ڈالیں۔ لکھ لیں اشرف غنی کو امریکہ میں پناہ لینا ہی پڑے گی۔ جیسے ہزاروں کی تعداد میں امریکی فوج کے حامی جہازوں میں لاد کر امریکہ اور دیگر ملکوں میں لائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح کسی دن سنیں گے کہ صدر غنی ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔

Leave a reply