مزید دیکھیں

مقبول

لنڈی کوتل:پاک افغان جرگے میں طورخم بارڈر کھولنے پر سیز فائر کا اتفاق

لنڈی کوتل(باغی ٹی وی رپورٹ)خیبر میں پاک افغان طورخم...

ملک ناقابل تسخیربنایا نواز شریف تیرا شکریہ،تجزیہ :شہزاد قریشی

دو کالم،،،،،،،،،،،،،،تجزیہ ،،،،،،،،،،،،،،،،،تصحیح شدہ امریکہ کی بدلتی پالیسی،یورپ سمیت دنیا...

حارث رؤف نے بیٹے کا نام شئیر کر دیا

اسلام آباد: قومی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر حارث...

حافظ آباد : نئی نویلی دلہن کےاندھے قتل کا معمہ حل، سفاک شوہر گرفتار

حافظ آباد،باغی ٹی وی (خبر نگارشمائلہ) تھانہ صدر حافظ...

افغان جنگ میں امریکی میڈیا کا کردار .تحریر: محمد مستنصر

افغانستان میں پیدا ہونیوالی صورتحال کے تناظر میں امریکا کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سیاستدان اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ افغانستان میں امریکی شکست کا ذمہ دار کون ہے؟ امریکی میڈیا پر کابل ایئر پورٹ سے تواتر کے ساتھ دکھائے جانے والے مناظر کی دھول میں لپٹے ہوئے امریکی شاید یہ بھول چکے ہیں کہ جارج بش کو افغانستان پر چڑھائی اور اس جنگ کی اجازت تو تمام امریکی تھنک ٹینک اور اداروں نے متفقہ طور پر ہی دی تھی جبکہ سی آئی اے اور پینٹاگون نے بھی9/11 واقعات کو جواز بنا کر افغانستان پر امریکی یلغار کی حمایت میں رپورٹس دی تھیں تاہم اس طویل اور تھکا دینے والی جنگ کے خاتمے پر نہ صرف حالیہ امریکی صدر بائیڈن اور سابق امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ دونوں متفق دکھائی دیئے بلکہ ABC ٹی وی کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق 63 فیصد امریکی عوام نے بھی افغان جنگ کے خاتمے کے حق میں رائے دی تاہم اس کے باوجود بین الاقوامی میڈیا پر "بلیم گیم” زور و شور سے جاری ہے صدر بائیڈن اگر افغان نیشنل آرمی کے پسپا ہوجانے، سابق افغان صدر اشرف غنی کے فرار اور طالبان کی طرف سے مکمل کنٹرول سنبھال لینے کے بعد کی صورتحال کو قابو میں نہیں لا سکے تو کیا اس عظیم امریکی شکست کا تمام تر ملبہ امریکی صدر بائیڈن پر ڈال دیا جائے؟ امریکی اور مغربی میڈیا پر جاری بلیم گیم کے تسلسل کے باعث امریکی صدر بائیڈن کی مقبولیت کا گراف نیچے گررہا ہے اور ٹائمز میگزین میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتحال اور امریکی افواج کے انخلاء کے بعد بائیڈن کی مقبولیت کے گراف میں 55 فیصد سے 47 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

امریکا کی اندرونی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق کابل ایئر پورٹ پر دیکھی گئی بدنظمی اور انتشار بائیڈن انتظامیہ کی ناکامی ہے جس کا خمیازہ بائیدن اور ان کی پارٹی کو مڈٹرم انتخابات میں ادا کرنا پڑ سکتی ہے جبکہ اس کے اثرات 2024 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات پر بھی پڑیں گے جس کا مطلب یہ ہوا کہ 20 سالہ طویل افغان جنگ کی بڑی قیمت ڈیموکریٹک پارٹی کو چکانا ہوگی۔ تاہم ایک سوال یہ بھی ہے کہ اس جنگ کی جو قیمت افغان عوام نے ادا کی ہے اس کی آواز امریکی اور مغربی میڈیا پر کیوں نہیں سنائی دے رہی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ خواتین کے حقوق اور امریکی افواج کی مدد کرنے والے افغان شہریوں کو وہاں سے نکالنے کا مطالبہ کرنے والے نیوز چینلز اور امریکی قومی اخبارات کو اس سے ذیادہ کچھ بولنے اور لکھنے کی اجازت ہی نہیں۔ 20 سال تک خانہ جنگی کا شکار رہنے والے ملک میں انسانیت کس طرح سسکتی رہی اسے بیان کرنا الفاظ میں ممکن نہیں۔ گذشتہ 20 سالوں کے دوران خواتین کے حقوق کے لئے امریکی میڈیا پر جو مہم چلائی جاتی رہی اس سے اگر کچھ فرق پڑا ہے تو محض اتنا کہ افغانستان کے چند بڑے شہروں میں چند ہزار تعلیم یافتہ خواتین کو ملازمتیں ملی ہیں، چند لاکھ لڑکیوں کو سکول اور کالج جانے کی آزادی حاصل رہی دوعشروں کے دوران ہونے والی اس پیشرفت کو سراہا تو ضرور جا سکتا ہے مگر امریکی اداروں کی طرف سے فراہم کئے جانے والے اعداد وشمار کے مطابق 38.4 ملین آبادی والے ملک میں 84 فیصد خواتین نادہندہ ہیں۔ امریکی صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ امریکا افغانستان کی تعمیر نو کے لئے نہیں گیا تھا شاید بائیڈن اور ان کے معاونین یہ بھول چکے ہیں کہ امریکی صدر بش نے افغان جنگ کو Operation Enduring Freedom کا نام دیا تھا، افغانوں کو آزادی دلانے کا مشن ان کے ملک کی تعمیر نو اور ترقی و خوشحالی کے بغیر بھلا کیسے ممکن ہو سکتا تھا، اس مقصد کے لئے جرمنی کے شہر بون میں 22 دسمبر 2001 کو ایک کانفرنس بلائی گئی تھی جس میں حامد کرزئی کو عبوری صدر منتخب کیا گیا تھا۔

طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد منعقد ہونے والی اس کانفرنس کے اغراض و مقاصد میں نئے آئین کی تشکیل، آزاد عدلیہ اور میڈیا کے لئے ماحول سازگار بنانے کے ساتھ خواتین کے حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے اقدامات شامل تھے۔ اس حکمت عملی کا بنیادی مقصد ایک ایسے ریاستی ڈھانچے کی تشکیل تھی جو جنوبی اور وسطی ایشیاء میں مغربی ممالک کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔ صدر بائیڈن کو آج کل غیر منظم انداز میں افغانستان سے انخلاء کی پاداش میں کوسنے والا میڈیا انہیں افغانستان پر حملے اور قبضے کے اغراض ومقاصد سے کیوں آگاہ نہیں کرتا؟ امریکی میڈیا یہ کیوں نہیں بتاتا کہ جناب صدر ہم افغانستان تعمیر نو ہی کے لئے تو گئے تھے اور اس وقت اگر یہ ڈرامہ نہ رچایا جاتا تو افغانستان پر قبضے کے لئے صرف القاعدہ کو تباہ کرنے والی دلیل کافی نہ تھی۔ امریکی میڈیا کو اپنے صدر محترم کو یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ 20 برس تک افغانستان پر امریکی قبضے کے دوران اس ملک میں روزانہ جو قتل وغارت ہوتی رہی کیا اس کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا؟ کیا کبھی بائیڈن انتظامیہ یا سابقہ امریکی صدور نے یہ اعداد وشمار مرتب کروائے کہ اس لاحاصل جنگ میں مارے جانے والے بے گناہ افغانوں کی صحیح تعداد کتنی ہے اور کتنے جسمانی معذور ہو کر زندگی بھر محتاجی کی زبدگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ آپ بڑے فخر سے تعلیمی معیار اور سطح، بچوں کی شرح اموات، زچگی میں ہونے والی اموات اور اپنی پسند سے شادی کرنے کے حق کو کسی بھی ملک کی ترقی کا پیمانہ سمجھتے ہیں تو آج ان تمام اشاریوں میں افغانستان کہاں کھڑا ہے؟ کیا اقوام متحدہ میں کوئی ایسا کٹہرا ہے جہاں آپ کو کھڑا کرکے پوچھا جائے کہ 20 سال تک آپ ایک ملک پر قابض رہ کر کیا کرتے رہے؟ امریکا میں تو ایسے صحافیوں کی کمی نہیں جو صدر محترم سے اپنا من چاہا سوال پوچھ سکتے ہیں تو امریکا کے آزاد صحافی اپنے صدر محترم سے پوچھ کیوں نہیں لیتے کہ 20 سال کی خانہ جنگی اور خونریزی کے بعد اس اجڑے ہوئے ملک کی تعمیر نو کون کرے گا؟ آپ نے تو امریکی بینکوں میں موجود افغانستان کے ساڑھے نو ارب ڈالرز کے فنڈز بھی منجمد کر دیئے ہیں جبکہ یورپی یونین نے بھی اس ملک کی تباہی میں دل کھول کر اپنا حصہ ڈالنے کے بعد اس کی مالی امداد بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ جناب صدر آپ کے اس تاریخی کارنامے پر اس کے علاوہ اور کیا لکھا جا سکتا ہے کہ:
ہمیں تو خاک اڑانا تھی بس اڑا آئے
ہمارا دشت میں کوئی پڑائو تھا ہی نہیں۔۔۔

@MustansarPK

محمد مستنصر
محمد مستنصر
Muhammad Mustansar Is Islamabad based Journalist and Writer at baaghitv.com He can be reached at muhammadmustansarpk@gmail.com and Twitter @MustansarPK