تہران: ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد نے ایک اہم اور تشویشناک انکشاف کیا ہے جس نے ایرانی خفیہ اداروں کی صلاحیتوں اور ان کی فعالیت پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو دیے گئے اپنے حالیہ انٹرویو میں احمدی نژاد نے انکشاف کیا کہ ایرانی سیکریٹ سروس نے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ایجنٹس کو نشانہ بنانے کے لیے جو خصوصی یونٹ قائم کیا تھا، اس یونٹ کا سربراہ ہی موساد کا ایجنٹ تھا۔ یہ انکشاف نہ صرف ایران کی سکیورٹی سروسز کے لیے ایک دھچکہ ہے بلکہ اس سے خطے میں اسرائیل کی خفیہ کارروائیوں کی وسعت اور ان کے ایران پر اثرات بھی نمایاں ہوتے ہیں۔محمود احمدی نژاد کے مطابق ایرانی خفیہ ادارے نے موساد کے ایجنٹس کا قلع قمع کرنے کے لیے خصوصی یونٹ قائم کیا تھا جس کا مقصد اسرائیلی ایجنسی کی سرگرمیوں کا سدباب کرنا تھا۔ اس یونٹ کی سربراہی جس شخص کو سونپی گئی، وہ نہ صرف موساد کا ایجنٹ تھا بلکہ اس کے تحت کام کرنے والے دیگر ایجنٹس بھی اسرائیلی ایجنسی کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ احمدی نژاد کا کہنا تھا کہ یہ موساد ایجنٹس 20 دیگر اسرائیلی ایجنٹس کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے اور انہیں ایرانی خفیہ اداروں کے اعلیٰ عہدے پر فائز کیا گیا تھا۔یہ انکشاف اس وقت اور بھی سنجیدہ نوعیت اختیار کر جاتا ہے جب یہ معلوم ہو کہ یہی یونٹ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق حساس دستاویزات چوری کرنے اور ایرانی جوہری سائنسدانوں کے قتل میں ملوث تھا۔ ایران کے کئی جوہری سائنسدان گزشتہ برسوں میں مختلف حملوں اور سازشوں کا نشانہ بنے، اور اب یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ ان کارروائیوں کے پیچھے موساد کے ایجنٹس تھے، جنہوں نے ایرانی خفیہ سروس کے اندر سے اپنے مقاصد کو پورا کیا۔
سابق صدر احمدی نژاد نے اس پورے معاملے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی سلامتی اور خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس شخص کو ایرانی سیکریٹ سروس نے اپنے ملک کی حفاظت کے لیے خصوصی طور پر تعینات کیا تھا، وہی شخص نہ صرف ایران کے مفادات کو نقصان پہنچا رہا تھا بلکہ موساد کے ساتھ مل کر ایران کے جوہری پروگرام کو بھی نشانہ بنا رہا تھا۔احمدی نژاد کے مطابق یہ واقعہ ایران کی تاریخ کے بدترین سیکیورٹی سکینڈلز میں سے ایک ہے۔ یہ انکشاف ظاہر کرتا ہے کہ موساد کس قدر گہرائی میں ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر چکا تھا۔ ایران کے اندرونی حلقے بھی اس معاملے پر حیران و پریشان ہیں اور یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیسے ایرانی خفیہ ایجنسیوں نے ایک ایسے شخص کو حساس عہدے پر تعینات کر دیا جو ملک کی سکیورٹی کے لیے سنگین خطرہ ثابت ہوا۔یہ انکشاف نہ صرف ایران کے اندر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک بڑے سکینڈل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ایران کی سکیورٹی ایجنسیوں کی ساکھ اور ان کی صلاحیتیں اس وقت شدید دباؤ میں ہیں۔ ایرانی حکومت پر بھی اس معاملے کی مکمل تحقیقات اور جواب دہی کے لیے زور دیا جا رہا ہے۔
احمدی نژاد کے انکشافات نے موساد کی ایران کے اندر سرگرمیوں کے حوالے سے بھی ایک نیا پہلو پیش کیا ہے۔ موساد کی کامیابیاں اور ایرانی ایجنسیوں میں ان کی دراندازی کا یہ واقعہ خطے میں ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ کر سکتا ہے۔ اب تک ایرانی حکومت کی جانب سے اس انکشاف پر کوئی باضابطہ بیان نہیں آیا، تاہم اندرونی ذرائع کے مطابق ایرانی سکیورٹی ادارے اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ اس دوران ایران کے عوام اور بین الاقوامی برادری اس معاملے کی مکمل حقیقت اور اس کے اثرات جاننے کے منتظر ہیں۔یہ انکشاف اس وقت سامنے آیا ہے جب ایران اور اسرائیل کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں اور خطے میں جاری مختلف تنازعات کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان خفیہ جنگ شدت اختیار کر چکی ہے۔ ایران کے لیے یہ چیلنج نہ صرف سکیورٹی کے معاملے میں سنگین ہے بلکہ داخلی استحکام اور حکومتی ساکھ کے لیے بھی ایک بڑا امتحان بن چکا ہے۔محمود احمدی نژاد کے اس تہلکہ خیز انکشاف نے ایران کی سکیورٹی ایجنسیوں کی کارکردگی پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ایران کی حکومت کو اس سکینڈل سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہوگی تاکہ آئندہ اس قسم کی غلطیاں نہ دہرائی جائیں اور ملک کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔ موساد کے ایجنٹس کی ایرانی سکیورٹی اداروں میں دراندازی کا یہ واقعہ خطے میں مستقبل کے تعلقات اور خفیہ جنگوں پر گہرا اثر ڈالے گا۔