سرگودھا میں احمدیوں کی 118 سال پرانی عبادت گاہ پر مشتعل ہجوم کا حملہ

0
47

سرگودھا کی تحصیل بھیرہ کے گاؤں گھوگھیاٹ میں ہجوم نے احمدی برادری کی 118 سال پرانی عبادت گاہ میں توڑ پھوڑ کی۔

باغی ٹی وی: ترجمان احمدیہ کمیونٹی عامرمحمود کے مطابق 16 اپریل کی شب 11 بجے کےقریب ہجوم گُھگھیات میں احمدیوں کی عبادت گاہ کے میناروں اور گنبد کو توڑنے آئے یہ سب اس وقت ہوا جب پولیس وہاں موجود تھی تاہم پولیس اہلکاروں نے مشتعل ہجوم کو روکنے کی کوشش نہ کی۔

ملک بھر میں مزید بارشوں کی پیشگوئی

تاہم سرگودھا کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر فیصل کامران کا کہنا ہے کہ پولیس حالات کی نزاکت کوسمجھتے ہوئےکوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتی جس سے حالات کشیدہ ہوں ، تاہم ایک مذہبی جماعت کے جن کارکنوں نے احمدیوں کی عبادت گاہ پر توڑ پھوڑ کی حملہ آوروں کے خلاف درخواست موصول ہونے کے بعد مقدمہ درج کیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں پولیس سختی سے قانون پر عملدرآمد یقینی بنائے گی-

عامرمحمود نے کہا کہ یہ عبادت گاہ کافی قدیم ہےیہ 1905 میں تعمیر کی گئی تھی اوریہاں بسنے والے احمدیوں کے مقامی مکینوں کے ساتھ تعلقات ہمیشہ مثالی رہے ہیں،حملہ آور کون ہیں اور کہاں سےآئے ہیں یہ بات پولیس بھی جانتی ہےلیکن یوں معلوم ہوتا ہےکہ پولیس ان لوگوں کے زیر اثر ہے اور ان کے خلاف کارروائی نہیں کرنا چاہتی۔

طور خم بارڈر پر پہاڑی تودہ گرنے سے متعدد کنٹینرز اور مال بردارگاڑیاں ملبے تلے دب گئیں

عمار محمود نے کہا کہ ہجوم اور سرکاری اہلکاروں کی طرف سے احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملہ اور مسمار کرنا پاکستان کے آئین اور جسٹس تصدق حسین جیلانی کے 2014 کے فیصلے کی صریح خلاف ورزی ہےانہوں نے مطالبہ کیا کہ یہ سب فوری طور پر بند ہونا چاہئے اور مذہبی اقلیتوں کا تحفظ یقینی بنایا جانا چاہیئے-

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق گھوگھیاٹ کی مرکزی جامع مسجد کے امام قاری خلیل الرحمٰن نے پولیس کو جو درخواست دی ہے اس میں الزام لگایا گیا کہ قادیانی عبادت گاہ کے اندر بچوں کو قرآن پڑھایا جا رہا تھا جس کی تعلیم وہ شرعی و قانونی طور پر نہیں دے سکتے۔

سی ٹی ڈی کا راجن پور میں آپریشن، کالعدم تنظیم کے 2 دہشتگرد اپنے ہی …

انہوں نے کہا کہ موقع پر موجود پولیس گارڈ کو اس بارے آگاہ کیا گیا تو اس نے معلم کو منع کیا ، مگر معلم باز نہ آیا اور اس نے عبادت گاہ سے باہر آکر مبینہ طور پر مجھے قتل کی دھمکیاں دیں۔

سرگودھا ضلعی انتظامیہ کے ترجمان نے موقف اختیار کیا ہے کہ یہ ایک حساس ایشو ہے جوکہ قبل ازیں ڈسٹرکٹ امن کمیٹی کے اجلاس میں زیرِ بحث آ چکا ہے اور ضلعی امن کمیٹی نے ہی متفقہ طور پر احمدیوں کی عبادت گاہ کے باہر بورڈ لگانے کی منظوری دی تھی۔

Leave a reply