سڈنی کے مشہور علاقے بونڈی میں پیش آنے والے المناک واقعے نے آسٹریلیا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس واقعے میں 16 افراد ہلاک ہوئے، جس کے بعد شہر میں خوف و ہراس کی فضا قائم ہے۔
گزشتہ دسمبر 2024 سے اب تک سڈنی میں مبینہ طور پر یہودی برادری کو نشانہ بنانے والے 8 حملے رپورٹ ہو چکے ہیں۔ ان حملوں میں زیادہ تر ایسٹرن سبربز شامل ہیں، جہاں یہودی آبادی نمایاں تعداد میں مقیم ہے۔رپورٹس کے مطابق یہودی سینیگوگ (عبادت گاہ) کو دو مرتبہ نقصان پہنچایا گیا،یہودیوں کی ملکیت ایک چائلڈ کیئر سینٹر پر فائرنگ کی گئی،یہودیوں کی ملکیت متعدد گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی گئی،کوشر گوشت کے ریسٹورنٹ پر حملہ کیا گیا،یہ تمام واقعات ایک ایسے علاقے میں پیش آئے جہاں یہودی آبادی ہے اور جو سڈنی کے خوشحال ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔
اہم سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ اتنے حملوں کے بعد، یہودی برادری کے ایک بڑے مذہبی تہوار کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیوں نہیں کیے گئے؟ناقدین کا کہنا ہے کہ مسلسل خبردار کرنے کے باوجود پولیس کی موجودگی نہ ہونا ایک سنگین غفلت ہو سکتی ہے، جس کے نتائج انتہائی تباہ کن ثابت ہوئے۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس واقعے پر شدید ردعمل دیتے ہوئے آسٹریلوی وزیرِ اعظم کو تنقید کا نشانہ بنایا اور دعویٰ کیا کہ آسٹریلیا میں اینٹی سیمیٹک تشدد کے پھیلاؤ کو بروقت نہیں روکا گیا۔نیتن یاہو نے ایک طرف آسٹریلوی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا، وہیں دوسری جانب بانڈی واقعے میں جانیں بچانے والے ایک مسلمان شہری احمد ال احمد کی کھلے الفاظ میں تعریف کی۔ ان کا کہنا تھا کہ “ایک بہادر مسلمان شخص نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر دوسروں کی زندگیاں بچائیں، جو انسانیت کی اعلیٰ مثال ہے۔”
سڈنی میں ایک بڑی اسلامی کمیونٹی آباد ہے، تاہم تمام اسلامی تنظیموں اور مسلم رہنماؤں نے واضح کیا ہے کہ آسٹریلیا کے مسلمان ذمہ دار اور قانون پسند شہری ہیں،وہ ہر قسم کی نفرت، تشدد اور مذہبی انتہا پسندی کی مذمت کرتے ہیں،کسی ایک فرد یا واقعے کو پوری کمیونٹی سے جوڑنا ناانصافی ہے
بونڈی سانحہ نہ صرف ایک سیکیورٹی ناکامی پر سوالیہ نشان ہے بلکہ یہ واقعہ مذہبی ہم آہنگی، نفرت انگیز جرائم اور حکومتی ذمہ داری جیسے حساس معاملات کو بھی سامنے لے آیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بروقت اقدامات، مؤثر نگرانی اور کمیونٹی لیول پر رابطہ کاری مضبوط ہوتی تو شاید اتنے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع سے بچا جا سکتا تھا۔تحقیقات جاری ہیں، اور پوری دنیا کی نظریں آسٹریلوی حکومت پر مرکوز ہیں کہ وہ اس سانحے کے بعد کیا عملی اقدامات اٹھاتی ہے۔








