ایک بے کار سا مشورہ —- ابن فاضل

اوپن مارکیٹ ڈالر ڈھائی سو میں بھی نہیں ملتا. اور ذہین حکومت سرکاری نرخ دوسو پچیس پر باندھ کر مطمئن ہے. باہر کے ملکوں سے پاکستان رقم بھیجنے والوں کو بینک سے ہزار ڈالر کے عوض سوا دولاکھ ملیں اور دیگر ذرائع سے بھیجیں تو ڈھائی لاکھ ملیں تو کم ہی محب وطن ایسے ہوں گے جو اتنا نقصان کرکے بھی بینک سے بھیجیں.. یہی وجہ ہے کہ ترسیلات زر پچھلے سال کے مقابلے میں بہت کم رہ رہی ہیں. یہ عمل تجارتی خسارے میں اضافے کا باعث ہے.

صورت حال یہ ہے کہ سرکار کے پاس زرمبادلہ کی قلت کے باعث صنعت کے لیے ناگزیر سامان کی درآمد پر بھی کہیں اعلانیہ اور کہیں غیر اعلانیہ پابندی لگائی جاچکی ہے.ٹریکٹر ساز اور کاریں بنانے والے ادارے اور ان پر منحصر ساری صنعت شدید مالی بحران سے دوچار ہے. لاکھوں لوگوں بے روزگار ہونے جارہے ہیں. اور اس بحران کی مدت کتنی ہے اور حل کیا ہے کسی کونہیں معلوم. مستقبل کے حالات کا سوچ کر بھی خوف آرہا ہے.

ایسے میں ہمارے ذہن میں ایک حل آرہا تھا سوچا آپ کے ساتھ سانجھ کرلیں شاید کوئی بہتری کی صورت نکل آئے. بیرون ملک پاکستانیوں کو پاکستان میں چند میدانوں میں جیسے، ہاؤسنگ، فوڈ ویلیو ایڈیشن ،اور انجینئرنگ وغیرہ کی صنعت میں سرمایہ کاری کی دعوت دی جائے. ان کے لیے خصوصی سرمایہ کاری اکاؤنٹ کھولیں جاسکتے ہیں . جن میں سرمایہ بھیجنے پر انہوں مارکیٹ ریٹ سے پچیس تیس روپے فی ڈالر زیادہ رقم دی جائے.مگر شرط یہی ہوگی کہ یہ رقوم یہاں جائدادیں بنانے کے لیے نہیں بلکہ صنعتیں لگانے پر صرف ہوگی.

دس ارب ڈالرز کے بدلے ڈھائی، تین سو ارب روپے فالتو دینا پڑیں گے جس سے شاید انفلیشن تو تھوڑا سا بڑھے گا مگر دس ارب ڈالر ایک دم آنے سے جو ملکی صورتحال میں یک دم بہتری آئے گی، غیر یقینی صورتحال کے خاتمہ اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے وہ اس سے کہیں زیادہ فائدہ کا باعث ہوں گے.

لیکن ظاہر ہے کہ یہ ایک وقتی حل ہے. مستقل بنیادوں پرمعاشی استحکام کے لئے ہمیں سب سے پہلے غیر یقینی صورتحال کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنا پڑے گا. کسی طور ساری بڑی جماعتیں کسی طاقتور گارنٹر کی موجودگی میں ایک چارٹر آو اکانومی پر متفق ہوجائیں تاکہ ملک میں کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو معاشی پالیسیوں کے تسلسل کو نہ چھیڑا جاسکے. اگر یہ نہیں ہوتا تو پھر منیر نیازی کا شعر دریا کی جگہ بحران لگا کر پڑھیں.

اک اور دریا کا سامنا تھا منیرمجھ کو
دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

Comments are closed.