سوات کا سانحہ . ایک معصوم کی خاموشی، ایک قوم کی بے حسی
عبدالرشید ترابی(جنرل سیکرٹری پاکستان مرکزی مسلم لیگ، بلتستان ڈویژن)
قدرتی آفات جب آتی ہیں تو صرف زمین، مکانات اور فصلیں نہیں بہاتیں بلکہ انسانوں کے ارمان، خواب، رشتے اور زندگیوں کو بھی اپنے ساتھ لے جاتی ہیں۔ ان آفات کا قہر جہاں قدرت کی طاقت کا مظہر ہوتا ہے، وہیں ہماری ریاستی کمزوری، ناقص منصوبہ بندی اور اجتماعی بے حسی کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔ سوات کا حالیہ واقعہ، جس میں ایک ہی خاندان کے دو معصوم بچے دریا کی بے رحم موجوں کی نذر ہو گئے اور کل اٹھارہ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، صرف ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک ایسا المیہ ہے جو ہمارے قومی ضمیر پر سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے۔
یہ سانحہ صرف ایک خاندان کا دکھ نہیں، یہ پوری قوم کے لیے ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنی غفلت، لاپرواہی اور ترجیحات کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔ یہ المیہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم نے اپنی ریاستی ذمہ داریوں کو کتنا سنجیدہ لیا ہے؟ کیا ہمارے لیے انسانی جانیں واقعی اہم ہیں؟ یا ہم صرف تب جاگتے ہیں جب کسی ماں کی گود خالی ہونے کے بعد کوئی معصوم، ہمارے دلوں کو ہلا دے؟
جب تعزیت کے لیے ڈسکہ جانا ہوا، تو دل بوجھل تھا۔ الفاظ جیسے ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ گھر میں ایک عجیب سی خاموشی طاری تھی—نہ قہقہے، نہ بچوں کی کلکاریاں، نہ روزمرہ کی چہل پہل۔ اس خاموشی میں سب سے نمایاں وہ بچہ تھا جو ایک اجنبی کی گود میں سر رکھے، موبائل پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ شاید موبائل کی چمکتی اسکرین میں وہ دنیا تلاش کر رہا تھا جہاں اس کے بھائی بہن اب بھی زندہ ہوں، ہنستے کھیلتے ہوں۔
یہ وہ عمر ہے جہاں بچے کھلونوں کے لیے روتے ہیں، مگر یہ معصوم اپنے بہن بھائیوں کے لیے دل ہی دل میں رو رہا تھا۔ ہر چند لمحوں بعد وہ سر اٹھا کر ایک ہی سوال دہراتا: "بھائی کب واپس آئیں گے؟” یہ سوال صرف ایک بچے کا نہیں، یہ سوال اس قوم سے ہے جو آفات کے بعد تصویریں کھینچتی ہے، سوشل میڈیا پر کمنٹس کرتی ہے، اور پھر اگلے حادثے تک سب کچھ بھول جاتی ہے۔ وہ بچہ جو کل تک اسکول جانے کی تیاری کر رہا تھا، آج خاموش بیٹھا اپنی ننھی یادوں میں اپنے بچھڑ جانے والوں کو تلاش کر رہا ہے۔ کیا ہم واقعی ایک ایسی قوم بن چکے ہیں جس کے جذبات بھی وقتی اور مصنوعی ہو چکے ہیں؟
اصل سوال یہ نہیں کہ سیلاب کیوں آیا، بلکہ یہ ہے کہ ہمیں کب سے معلوم تھا کہ سیلاب آ سکتا ہے؟ کیا ہمارے پاس بروقت وارننگ سسٹم موجود تھا؟ کیا مقامی انتظامیہ نے خطرے کے پیشِ نظر لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا؟ کیا ہم نے وہ تمام اقدامات کیے جن سے ان قیمتی جانوں کو بچایا جا سکتا تھا؟ افسوس، ان سب سوالوں کا جواب "نہیں” ہے۔
سوات جیسے پہاڑی علاقوں میں بارش اور لینڈ سلائیڈنگ معمول کا حصہ ہیں۔ وہاں کے لوگ ہر سال اس خطرے کے سائے میں جیتے ہیں۔ دریا کے کنارے آبادیاں، بغیر کسی حفاظتی بند یا فلڈ پروف انفراسٹرکچر کے، ہمیشہ خطرے کی زد میں رہتی ہیں۔ حکومت نے ماضی میں بھی دعوے کیے، فنڈز منظور کیے، لیکن عملی طور پر کچھ نہیں ہوا—صرف تصاویر، بیانات اور رسمی دورے۔
بارہا یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ہم صرف حادثات کے بعد متحرک ہوتے ہیں۔ آخر کیوں ہم ایک مؤثر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم قائم نہیں کر سکے؟ کیا مقامی حکومتوں کو اس سلسلے میں وسائل اور اختیارات دیے گئے؟ کیوں اسکولوں، اسپتالوں اور رہائشی علاقوں کو محفوظ مقامات پر منتقل نہیں کیا گیا؟ یہ سانحہ یاد دلاتا ہے کہ قدرت کی مہلت ہمیشہ نہیں ملتی۔ اگر ہم اب بھی نہ جاگے، تو کل کو کوئی اور بچہ یہی سوال پوچھے گا—اور شاید تب بھی ہمارے پاس کوئی جواب نہ ہو۔
ایک اور پہلو جو اس سانحے کو مزید المناک بناتا ہے، وہ ہے ریاست کی غیر موجودگی۔ جب حادثہ ہوا، تو ابتدائی گھنٹوں میں نہ کوئی ریسکیو ٹیم پہنچی، نہ کوئی حکومتی اہلکار۔ مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت لاشیں نکالیں، زخمیوں کو اسپتال پہنچایا، اور بے یار و مددگار متاثرین کی دلجوئی کی۔ یہ کس کی ذمہ داری تھی؟ کیا متاثرین کو حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ہی ہمارا نیا قومی اصول بن چکا ہے؟
میڈیا کا کردار بھی اس حوالے سے تنقید کا مستحق ہے۔ چند گھنٹوں کی کوریج کے بعد اس خبر کو یوں نظرانداز کر دیا گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ افسوس، ریٹنگز کی دوڑ میں انسانیت کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔ ہمارے عوام کا اجتماعی حافظہ بھی حد درجہ کمزور ہو چکا ہے۔ ہم سانحات کو صرف اس وقت یاد رکھتے ہیں جب وہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بن جائیں۔ جیسے ہی کوئی نئی خبر آتی ہے، پرانی فراموش ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار انہی المیوں کو دہرا رہے ہیں، بغیر کسی سبق کے۔
اگر ہم واقعی ایک باشعور اور مہذب قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں صرف اظہار افسوس سے آگے بڑھنا ہوگا۔ ہمیں ایک جدید، مربوط اور فعال ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم قائم کرنا ہوگا۔ ہر قدرتی آفت کی بروقت اطلاع کے لیے جدید ٹیکنالوجی پر مبنی الرٹ سسٹم ہونا چاہیے، جو مقامی آبادی کو فوری خبردار کرے۔ دریا کے کناروں پر حفاظتی بند، فلڈ چینلز اور مضبوط پل بنائے جائیں تاکہ سیلاب کے خطرات کم ہوں۔ NDMA اور PDMA کی ٹیموں کو مقامی سطح پر بااختیار اور متحرک بنایا جائے۔ ہر ضلع کی انتظامیہ کو فنڈز، ساز و سامان اور عملہ مہیا کیا جائے تاکہ وہ مقامی طور پر ان آفات سے نمٹنے کے قابل ہو۔ عوام کو قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے شعور دیا جائے، خاص طور پر اسکولوں اور کالجوں میں، تاکہ بچے نہ صرف خود محفوظ رہ سکیں بلکہ دوسروں کی بھی مدد کر سکیں۔
سوات کا یہ سانحہ صرف ایک خبر نہیں، ایک چیخ ہے۔ ایک دردناک یاد دہانی ہے کہ ہمیں اب جاگنا ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ ہم انسانی زندگی کو اعداد و شمار کے بجائے حقیقی قیمت دیں۔ وہ بچہ جس نے سوال کیا: "بھائی کب واپس آئیں گے؟” اس کا جواب ہماری آئندہ نسلوں کے مستقبل سے جڑا ہے۔ اگر ہم نے اب بھی کچھ نہ کیا، تو یہ سوال ہمیشہ کے لیے ہماری اجتماعی بے حسی کا آئینہ بن کر رہ جائے گا۔