غیرقانونی طورپر بھارت کے زیرِقبضہ جموں کشمیر میں اظہارِ رائے کی آزادی کو دبانے کے ایک اور واقعے میں بھارتی حکام نے ضلع بڈگام میں ایک فیس بک پیج "کشمیر اسپیکس” کے ایڈمنسٹریٹر کے خلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے اس پر سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلانے کا الزام لگایا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق خان صاحب پولیس اسٹیشن میں کالے قانون بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کے تحت ایک ایف آئی آر درج کی گئی ہے جب مذکورہ پیج پر ایک رپورٹ شائع کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ آری زال کے بازار میں گوشت فروخت کرنے کے لئے ایک گھوڑے کو ذبح کیا گیا ۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ رپورٹ سے مقامی لوگوں میں غیر ضروری خوف اور افراتفری پھیل گئی۔حکام نے بتایا کہ یہ کیس 26 اگست کو پیش آنے والے ایک واقعے کے سلسلے میں درج کیاگیا ہے جس میں رکھائی گائوں میں ایک گھوڑا مارا گیا تھا۔تاہم انسانی حقوق کے کارکن اس کارروائی کو مقبوضہ علاقے میں آن لائن اظہارِ رائے پر ایک وسیع کریک ڈاؤن کا حصہ سمجھتے ہیں جہاں صحافیوں ، انسانی حقوق کے کارکنوں اور عام سوشل میڈیا صارفین کو سرکاری پالیسیوں پر سوالات اُٹھانے پر اکثر مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سول سوسائٹی ارکان کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کشمیریوں کی آوازوں کو دبانے کے لیے قوانین کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے آن لائن پوسٹوں پر ظالمانہ کارروائیاں کر رہی ہے ، خاص طور پر ان لوگوں کے خلاف جو زمینی حقائق کو شیئر کرنے کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم استعمال کر رہے ہیں۔یہ اقدام مقبوضہ جموں کشمیر میں شہری آزادیوں پر بڑھتی ہوئی پابندیوں کی عکاسی کرتا ہے جہاں حکام بھارتی پالیسیوں پر تنقید کرنے والی آن لائن سرگرمیوں کی باقاعدگی سے نگرانی کر رہے ہیں اور لوگوں کو سزا دے رہے ہیں۔