تحریر: رضی طاہر

کہتے ہیں سیاست دان ایسے اقدامات کرتے ہیں جن کے بارے میں انہیں علم ہوتا ہے کہ ان کاموں کے نتائج انہیں اگلے انتخابات میں ملیں گے لیکن قائدین کی نظر اگلے انتخابات پر نہیں بلکہ اگلی نسل پر ہوتی ہے، وہ ایسے اقدامات کرتے ہیں جس کے پھل سے نسلیں سیراب ہوتی ہیں، ایک قوم ایک نصاب کے اقدام کی بھی مثال ایسی ہی ہے، ممکن ہے کہ ابھی اگلے چند سالوں میں اس کے نتائج سامنے نہیں آئیں گے لیکن اگلے دو عشروں میں ایک نئی نسل جب سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں مختلف بجٹ کے ساتھ ایک جیسا نصاب پڑھ کر کسی مقابلے کے امتحان میں جائے گی تو کوئی امیر و غریب، انگلش و اردو میڈیم کی تفریق کے بغیر قوم کے نوجوان بیٹھے ہوں گے۔ یقینا اس کے نتائج تب سامنے آئیں گے، دیہاتوں میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ غریب کا لڑکا نمبردار نہیں بن سکتا لیکن ایک قوم ایک نصاب دراصل انہی نمبرداریوں کو ختم کرنے کی جانب بارش کا پہلا قطرہ ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تیسرے سال کو مکمل کرچکی ہے ایسے میں حکومت کی جانب سے عوام کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات میں سب سے بڑا قدم ہمارے مستقبل کے معماروں کو ایک نصاب پڑھانا ہے، حکومت کی جانب سے اس کے اعلان کے بعد اشرافیہ میں کھلبلی سے مچ گئی ہے اور تعلیمی اداروں کے نام پر بڑے کاروباری مراکز کے مالکان نے عدالتوں کے چکر کاٹنا شروع کردیئے ہیں، وہ اپنی دوکانداریاں اور نمبرداریاں ختم کرنے کیلئے یہ چاہتے ہیں کہ عدالت آئین کے متصادم فیصلہ دے، لیکن ایسا ممکن نہ ہوگا۔ پاکستان کا آئین ملک کے ہربچے کو تعلیم کا حق دینے کے ساتھ ساتھ مساوات کا بھی درس دیتا دکھائی دیتا ہے اور مستقبل کے تحفظ کی ضمانت بھی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک پاکستان کے ایوان میں کسی نوجوان کی جگہ نہیں تھی لیکن گزشتہ انتخابات نے کئی بڑے بڑے برج الٹادیئے اور ان کی جگہ نوجوانوں نے لی، اب ایک وقت ایسا آئے گا کہ کسی دیہاڑی دار مزدور کا باصلاحیت بچہ بھی اسسٹنٹ کمشنر بن سکے گا، مقابلے کے امتحان میں بازی لے گا اور سول سروسز میں ایمانداری کو زیور بناتے ہوئے اپنی جگہ بنائے گا۔

ایک قوم ایک نصاب کا آغاز دراصل وزیراعظم عمران خان کے انتخابی مہم میں لگائے گئے نعرے کی تکمیل کی جانب بڑا قدم ہے، مینار پاکستان کے سائے تلے دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ لگا تھا، اب وہ وقت دور نہیں کہ جب یقینا نمبردار کے بیٹے کے مقابلے میں کئی نمبردار مقابلے میں تیار ہوں گے۔ایک قوم ایک نصاب طبقاتی تقسیم کے بت کو پاش پاش کردے گا، پاکستان میں ہمیشہ سے ایسے نہیں تھا، لیکن جب سے ہم نے اکیسیویں صدی میں قدم رکھا، پاکستان میں تعلیم کے ساتھ تجارت نتھی ہوگئی اس وقت سے طبقاتی فرق نے جنم لیا، جب تعلیم کو سمجھنے، سمجھانے اور تربیت حاصل کرنا کا ذریعہ اور حصول علم کا وسیلہ سمجھا جاتا تھا تب کوئی طبقاتی تفریق نہیں تھی۔

پاکستان میں ویسے تو کئی نظام تعلیم رائج ہیں اور لاتعداد نصاب، لیکن اگر ہم بالخصوص تقسیم کی بات کریں تو ہمارے زوال پذیر تعلیمی نظام نے چار طبقات میں تقسیم نسل تیار کی، یا یوں کہہ لیں کہ ہمارا نظام چار حصوں میں تقسیم ہے، پہلا نظام روایتی سکولوں میں رائج ہے جس میں اردو میڈیم، نیم انگریزی میڈیم یا اگر سندھ کی بات کی جائے تو وہاں سندھی میڈیم سکول قائم ہیں، دوسرا طبقہ یا نظام مکمل انگریزی میڈیم سکولوں کی صورت میں رائج ہے جہاں کی فیس عام آدمی کی پہنچ سے دور ہے، تیسرا طبقہ او اور اے لیول کا ہے اس طبقے میں وہی تعلیم حاصل کرپائے گا جو ماہانہ پچاس، ساٹھ ہزار فیس بھر سکتا ہو، گویا پیسے کی بنیاد پر تقسیم کردی گئی، اب غریب کا بچہ چاہے جتنا بھی باصلاحیت کیوں نہ ہو، یہاں اس کے والدین کے پر جلتے ہیں۔ چوتھا طبقہ مدارس کا ہے جہاں پر حکومتی نصاب کے ساتھ خاص فرقے یا مذہب بھی گھول کر پلایا جاتا ہے،لاکھوں کی تعداد میں بچے مدارس میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ دیگر اسکولوں سے تعلیم حاصل کرنے اور مدرسے سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ میں زمین آسمان کا فرق واضح محسوس کیا جاسکتا ہے۔

اب یہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے، ایک دوسرے کی سننے کی بجائے ایک دوسرے کے مخالف ہوجاتے ہیں، ایک دوسرے کی رائے اور سوچ کو رد کرتے ہیں۔ اس طبقاتی تقسیم کے نتیجے میں ہم نے مختلف نصاب، مختلف ماحول میں پڑھا کر جو کھیپ تیار کی تھی وہ ہمارے سامنے ہیں، وہ ہم لوگ ہیں جو 20سے30کے درمیان ہیں، تقسیم در تقسیم،اختلاف برائے اختلاف، سوشل میڈیا پر قوم کی یکجہتی کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں، تاہم ا ب حکومت وقت نے ایک قوم ایک نصاب کا فیصلہ کرکے طبقاتی نظام کو سمندر برد کرنے کاآغاز کیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے ملک کے تمام ادارے، سیاسی جماعتیں، مذہبی قائدین اور مشائخ ایک قوم ایک نصاب کو رائج کرنے کیلئے حکومت کے ساتھ تعاون کریں،یہ ہی واحد صورت ہے جو طبقاتی نظام کی تنسیخ کے لیے ضروری ہے۔

Shares: