زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرنا کیسا
جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے

معراج فیض آبادی

آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو کے ایک بہترین شاعر سیّد معراج الحق المعروف معراجؔ فیض آبادی،2 جنوری 1941 میں ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے ضلع فیض آباد کے قصبے کولا شریف میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم فیض آباد میں حاصل کی اس کے بعد انہوں نے لکھنو یونیورسٹی سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی ، تعلیم سے فراغت کے بعد سنّی وقف بورڈ میں ملازمت کی اور 2013ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوگئے ان کا ایک شعری مجموعہ ” ناموس“، 2004ء میں شائع ہوا ، وہ بیرون ممالک کےعالمی مشاعروں میں بڑی عزت کے ساتھ بلائے جاتے تھے ۔30 نومبر 2013ء کو ان کا لکھنو میں انتقال ہوا۔

معراج فیض آبادی کی شاعری سے انتخاب

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک ٹوٹی ہوئی زنجیر کی فریاد ہیں ہم
اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ آزاد ہیں ہم

کیوں ہمیں لوگ سمجھتے ہیں یہاں پردیسی
ایک مدت سے اسی شہر میں آباد ہیں ہم

کاہے کا ترک وطن کاہے کی ہجرت بابا
اسی دھرتی کی اسی دیش کی اولاد ہیں ہم

ہم بھی تعمیر وطن میں ہیں برابر کے شریک
در و دیوار اگر تم ہو تو بنیاد ہیں ہم

ہم کو اس دور ترقی نے دیا کیا معراجؔ
کل بھی برباد تھے اور آج بھی برباد ہیں ہم

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تھکی ہوئی مامتا کی قیمت لگا رہے ہیں
امیر بیٹے دعا کی قیمت لگا رہے ہیں

میں جن کو انگلی پکڑ کے چلنا سکھا چکا ہوں
وہ آج میرے عصا کی قیمت لگا رہے ہیں

مری ضرورت نے فن کو نیلام کر دیا ہے
تو لوگ میری انا کی قیمت لگا رہے ہیں

میں آندھیوں سے مصالحت کیسے کر سکوں گا
چراغ میرے ہوا کی قیمت لگا رہے ہیں

یہاں پہ معراجؔ تیرے لفظوں کی آبرو کیا
یہ لوگ بانگ درا کی قیمت لگا رہے ہیں

اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.۔۔۔۔۔

ہم غزل میں ترا چرچا نہیں ہونے دیتے
تیری یادوں کو بھی رسوا نہیں ہونے دیتے

اپنے کعبے کی حفاظت تمہیں خود کرنی ہے
اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا

زندگی دی ہے تو جینے کا ہنر بھی دینا
پاؤں بخشے ہیں تو توفیق سفر بھی دینا

زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرنا کیسا
جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے

ایک ٹوٹی ہوئی زنجیر کی فریاد ہیں ہم
اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ آزاد ہیں ہم

اے یقینوں کے خدا شہر گماں کس کا ہے
نور تیرا ہے چراغوں میں دھواں کس کا ہے

اے دشتِ آرزو مجھے منزل کی آس دے
میری تھکن کو گردِ سفر کا لباس دے

ہمیں پڑھاؤ نہ رشتوں کی کوئی اور کتاب
پڑھی ہے باپ کے چہرے کی جھریاں ہم نے

مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے

پیاس کہتی ہے چلو ریت نچوڑی جائے
اپنے حصے میں سمندر نہیں آنے والا

آج بھی گاؤں میں کچھ کچے مکانوں والے
گھر میں ہمسائے کے فاقہ نہیں ہونے دیتے

گفتگو تو نے سکھائی ہے کہ میں گونگا تھا
اب میں بولوں گا تو باتوں میں اثر بھی دینا

Shares: