وزیر دفاع خواجہ آصف نے حال ہی میں ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے 26ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر چیف جسٹس کو لکھے گئے خط کو ملک میں آئینی بحران پیدا کرنے کی ایک اور کوشش قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس خط کا مقصد عدالت کے ذریعے پارلیمنٹ کے اختیار کو چیلنج کرنا ہے، اور یہ سوال کیا کہ "یہ لوگ مانیٹر کیوں بننا چاہتے ہیں؟”خواجہ آصف نے اکتوبر میں ہونے والے بحران کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ان خطرات اب ٹل چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مطلع صاف ہونے کی وجہ سے گرج چمک کا کوئی امکان نہیں، تاہم پارلیمانی جمہوریت میں خطرات ہمیشہ رہتے ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ پاکستان میں ان کی پارٹی کو اکثریت حاصل ہے، لیکن نظام میں خطرات ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ، پی ٹی آئی کے اکتوبر کے بعد کے دعوؤں کی کچھ حقیقت تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ "ان میں کسی حد تک صداقت تھی، ہوم ورک بھی تھا اور عدلیہ بھی اس میں شامل تھی۔
وزیر دفاع نے یہ بھی ذکر کیا کہ ملک میں اب ماحول بہتر ہوگیا ہے اور استحکام کی فضا قائم ہو گئی ہے۔ انہوں نے حکومت کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "اب حکومت کی کوشش ہوگی کہ اپنی کارکردگی دکھائے۔خواجہ آصف نے ایک واقعے کا ذکر کیا جب بیرسٹر گوہر کو قانون سازی سے پہلے ایوان میں بات کرنے کا موقع دیا گیا تھا، لیکن ان کی اپنی پارٹی کے لوگوں نے انہیں بات نہیں کرنے دیا۔ اس پر انہوں نے افسوس کا اظہار کیا۔فوجی سربراہوں کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں بات کرتے ہوئے، وزیر دفاع نے وضاحت کی کہ یہ اقدام کسی فرد واحد کے لیے نہیں بلکہ ادارے کے مفاد میں کیا گیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کی صورت میں یہاں کوئی تبدیلی آئے گی تو یہ اس کی سوچ ہی ہے، کیونکہ "خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔یہ بیان اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ حکومت آئینی مسائل کے حوالے سے اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے کوشاں ہے اور ملک کی پارلیمانی جمہوریت کی اہمیت کو اجاگر کر رہی ہے۔

آئینی بحران کی کوششیں ناکام، پارلیمان کا اختیار برقرار رہے گا، خواجہ آصف
Shares: