آئینی ترمیم کی ناکام کوشش: حکومت اور اتحادیوں میں اختلافات نمایاں، بیر سٹر علی ظفر

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما بیرسٹر علی ظفر نے حکومت کی آئینی ترمیم کی کوشش پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے کسی کے کہنے پر ترمیم لانے کی کوشش کی، اور انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ نمبر پورے کرلیے جائیں گے۔ بیرسٹر علی ظفر نے یہ انکشاف ایک پروگرام میں گفتگو کے دوران کیا۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو مکمل یقین تھا کہ اسمبلی میں ان کے پاس مطلوبہ نمبرز موجود ہیں، اور وہ اس آئینی ترمیم کو باآسانی منظور کروا لیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئینی ترمیم کوئی معمولی بات نہیں ہوتی، بلکہ یہ ایک بہت بڑا اور سنجیدہ معاملہ ہے، جس پر مکمل غور و خوض ہونا چاہیے۔ علی ظفر نے 18ویں ترمیم کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس ترمیم پر ایک سال کا عرصہ لگا تھا، اس لیے حکومت کی موجودہ ترمیم کی جلد بازی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

دوسری طرف، ن لیگ کے رہنما طارق فضل چوہدری نے بھی پروگرام میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ اسمبلی میں ان کے پاس 13 اراکین کی کمی تھی، جس کی وجہ سے وہ ترمیم پیش نہ کر سکے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت دو ہفتوں بعد دوبارہ اس آئینی ترمیم کو سامنے لائے گی۔بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ حکومت کی جلدبازی کے پیچھے کچھ اور عوامل کارفرما تھے، اور ان کے اتحادی بھی اس عمل سے گھبرا گئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے کئی رہنما بھی اس معاملے پر اختلاف رکھتے تھے اور چند ترامیم کے حوالے سے مزید تفصیلات کا مطالبہ کر رہے تھے۔ علی ظفر نے مولانا فضل الرحمان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مولانا نے شکایت کی کہ انہیں کئی شقوں کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا، اور اس ہی بات سے حکومت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ علی ظفر نے کہا کہ ججز کی تعیناتی کے عمل کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، اور ہوسکتا ہے کہ کچھ ترامیم درست بھی ہوں، لیکن اس پورے عمل میں کھچڑی سی پک گئی ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے کی گئی آئینی ترمیم کی کوشش کو نہ صرف مخالفین بلکہ ان کے اپنے اتحادیوں کی طرف سے بھی شک و شبہات کا سامنا ہے۔

Comments are closed.