سپریم کورٹ، فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیل کیس میں آئینی بینچ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ بنانے کامقصد کیا تھا یہ سمجھ آجائے تو آدھا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی جس دوران بانی پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل دیے۔وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کالعدم ہوگیا تو بھی انسداد دہشتگردی کا قانون موجود ہے، ایک سے زائد فورمز موجود ہوں تو دیکھنا ہوگا کہ ملزم کے بنیادی حقوق کاتحفظ کہاں یقینی ہوگا، آئین کا آرٹیکل 245 فوج کو عدالتی اختیارات نہیں دیتا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا، کیا کورٹ مارشل عدالتی کارروائی نہیں ہوتا ؟ عزیر بھنڈاری نے جواب دیاکورٹ مارشل عدالتی اختیار ہوتا ہے لیکن صرف فوجی اہلکاروں کے لیے سویلینز کے لیے نہیں۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ سویلینز کی ایک کیٹیگری بھی آرمی ایکٹ کے زمرے میں آتی ہے، یہ تفریق کیسےہوگی کہ کونسا سویلین آرمی ایکٹ میں آتا ہے اور کون نہیں؟جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے آئین میں فوج کو دو طرح کے اختیارات دیے گئے ہیں، ایک اختیار دفاع کا ہے اور دوسرا سول حکومت کی مدد کرنے کا۔جسٹس امین الدین نے کہا آرٹیکل 245 والی دلیل مان لیں تو فوج اپنے اداروں کا دفاع کیسے کرے گی ؟ جی ایچ کیو پر حملہ ہو تو کیا آرٹیکل245 کےنوٹیفیکیشن کا انتظار کیا جائے گا ؟عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کوئی گولیاں چلا رہا ہو تو دفاع کے لیے کسی کی اجازت نہیں لینا پڑتی، جب حملہ ہو تو پولیس اور فوج سمیت تمام ادارے حرکت میں آتے ہیں، سپریم کورٹ ماضی میں لیاقت حسین کیس میں یہ نکتہ طے کرچکی ہے، عدالت قرار دے چکی فوج اگرکسی حملہ آورکوگرفتار کرےگی تو سول حکام کےحوالے کیاجائے گا، فوج پکڑے گئے بندے کے حوالے سے سول حکام کی معاونت ضرور کرسکتی ہے۔
جسٹس نعیم افغان نے سوال کیا اگر فوجی اورسویلین مل کر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کریں توٹرائل کہاں ہوگا؟ وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ایسی صورت میں ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں ہی ہوگا۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ بنانے کا مقصد کیا تھا یہ سمجھ آجائے تو آدھا مسئلہ حل ہوجائے گا، آئین میں اس کو واضح لکھا ہے کہ آرمڈ فورسز سے متعلقہ قانون، ہے، سویلین آفیسر کے خلاف تادیبی کارروائی میں سزا کا اختیار نہیں دیا گیا، ملٹری کورٹ میں سزا کا اختیار دیا گیا ہے، آرمی آفیسر چھٹی پر جرم سرزد کرے تو ٹرائل کہاں ہوگا؟ کیا ملٹری کورٹ کا اختیار بہت وسیع ہے یا محدود ہے؟ کراچی میں رینجرز اہلکاروں کاٹرائل سول کورٹ میں ہوا۔
جسٹس مندوخیل ریمارکس دیے کہ آئین پارلیمنٹ بناتی ہے،قانون سازی آئین کے مطابق ہی ہو سکتی ہے، کوئی قانون جو آئین سے مطابقت نہ رکھے نہیں بنایا جاسکتا، ہمارا المیہ یہی ہےکہ قانون کو سیاست کی نذر کردیا جاتاہے۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ نے بھارت میں کورٹ مارشل کے لیے الگ فورم کی بات کی تھی، اس پر جسٹس علی مظہر نے کہا کہ میری نظرمیں سلمان اکرم راجہ کا موقف مختلف تھا، جسٹس مندوخیل نے کہا عدالت دلائل کی پابند نہیں، آئین کے مطابق خود بھی فیصلہ کرسکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کیا پارلیمنٹ پر حملہ ہوتو پارلیمنٹ ٹرائل کے لیے الگ عدالت بنائے گی؟ ایگزیکٹو اور عدلیہ کو آئین میں الگ الگ رکھا گیا ہے، ملٹری ٹرائل میں شکایت کنندہ خود ایگزیکٹو ہوتی ہے، کیا شکایت کنندہ اپنے معاملے کا جج ہو سکتا ہے۔ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اگر آرمی ایکٹ میں سویلین کےملٹری ٹرائل کی اجازت دی گئی توکل مزید جرائم آرمی ایکٹ میں شامل ہوجائیں گے، جسٹس امین الدین نے کہا آپ آرٹیکل 245 کی دلیل دے رہے ہیں، وہ معاملہ ہی الگ ہے، جسٹس علی مظہر نے کہا آرٹیکل 245کےتحت فوج بلانے کا مطلب یہ ہرگزنہیں کہ عدالتیں چلانےکا اختیار بھی دے دیا جائے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کیا پرائم منسٹرکے آرڈر کو ہم کالعدم قرار دے سکتے ہیں؟ وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا عدالت ایسا کرسکتی ہے۔جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے ویسے آج تک کسی وزیراعظم نے 5 سال مکمل نہیں کیے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ایسا کوئی بہادر وزیراعظم نہیں آیا جس نے 5 سال مکمل کیے ہوں، جسٹس مندوخیل نے کہا ہم نے فوجی آمروں کو توثیق بھی دی۔ سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سیویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت تاحال جاری ہے۔