کھانا ہر انسان کی مادی ضرورت ہے ۔ ہمارے ہاں تو فون کی بیٹری، وائی فائی سگنلز کے بعد انسان کو سب سے زیادہ فکر دو وقت کی روٹی کی ہی ہوتی ہے، البتہ جو قومیں روٹی نہیں کھاتیں ، ان کے ہاں پتہ نہیں دو وقت کی ‘کیا’ کی فکر ہوتی ہوگی ۔ شاید چینی ایسا کہتے ہوں ‘بھئی اپنی تودو وقت کی نوڈلز بمشکل پوری ہوتی ہیں’ ۔ انگریز ماں شاید ایسے اپنے بچے کو دعا دیتی ہوگی ‘وے پیٹر… گاڈ کرے تجھے دو وقت کا برگر آسانی سے ملنا شروع ہو جائے ‘
ہمارے محلہ کے عظیم ماہرِ معیشت و پکوائی ،بشیر تندور والے کا کہنا ہے کہ ستر فیصد لوگوں کی اسی فیصد تگ ودو روٹی کمانے کے لئے ہوتی ہے جبکہ ان کا نوے فیصد بجٹ ‘سالن’ کھا جاتا ہے۔ قریب یہی نسبت سیاستدانوں اور بیوروکریسی میں ہے ۔ ادھر روٹی کا بھی عجیب معاملہ ہے، اکثر لوگوں کو کہتے سنا ‘بھئی آج سالن بہت لذیذ تھا میں تین روٹیاں کھا گیا’ حیرت ہوتی ہے ۔بھئی اگر سالن لذیذ تھا تو سالن زیادہ کھائیں نا روٹی بیچاری کا کیا قصور ہے ۔
کھانے میں، کمزور کا حق اور سرکار کے مال کے بعد شہد ، دہی اور ماں کی گالیاں سب سے زود ہضم غذائیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ جینے کے لیے کھاتے ہیں اور باقی کھانے کے لیے جیتے ہیں ۔ اسی لیے شاید کچھ لوگ بہت سلیقہ سے اور منتخب کھانا کھاتے ہیں ان کو عرفِ عام میں مہذب یا غیرملکی کہتے ہیں ۔اور دیگر کھانے پر ایسے حملہ آور ہوتے ہیں گویا کھانا کھا نہیں رہے فتح کر رہے ہوں۔ زیادہ کھانے والوں میں بھینسیں، بٹ، اہلیانِ گوجرانوالہ مولوی اور سیاستدان مشہور ہیں، جبکہ کم کھانے والوں میں، ماڈلز، چڑیاں ، ستر سی سی موٹر سائیکل اورموٹروے پولیس شہرت رکھتے ہیں۔
کھانے کے معاملہ میں ہرایک کا انتخاب مختلف ہے ۔ کچھ قومیں صرف گوشت نہیں کھاتیں، جبکہ کچھ صرف گوشت کھانا چاہتی ہیں چاہے کسی بھی جانور ۔ خود ہمارے حلقہ احباب میں کئی ایسے ہیں جو کہتے ہیں گوشت ہو چاہے لگڑ بگڑ کا ہی ہو۔ ایسے لوگوں کی خواہش اور فرمائش پر ہی شاید مہربانوں نے گدھے کے گوشت کو رواج دیا۔ گو اطباء اس بات پر بضد ہیں کہ غذائی اعتبار سے گدھے کے گوشت میں کوئی کمی نہیں ، البتہ دانشورانِ ملت کا خیال ہے کہ اس کے مسلسل استعمال سے دانائی جاتی رہتی ہے ۔ قابل خرگوشوی اس انکشاف پر چنداں پریشان نہیں، فرماتے ہیں کہ ہم نے دانائی کا کرنا بھی کیا ہے، ہمیں کونسا لیپ ٹاپ اور ہوائی جہاز بنانا ہیں، آجا کے ہم نے فرقے ہی بنانے ہیں، اور وہ دانائی کے بغیر عمدہ اور کثرت سے بنتے ہیں ۔
خود قابل خرگوشوی سے اگر پوچھا جائے کہ انہیں کھانے میں کیا پسند ہے تو کہیں گے اس کا انحصار اس بات پر ہےکہ پکا کیا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر انڈے آلوپکے ہیں تو انہیں انڈے پسند ہیں، اور اگر آلو بینگن پکے ہیں تو آلو، اور اگر بینگن اروی پکی ہو تو انہیں اچار پسند ہے ۔ چاول کے متعلق ان کی رائے ہے کہ یہ اگانے اور برآمد کرنے کی شے ہے پکانے کی نہیں ۔
دنیا کا سب سے آسان کام کھانا ہے اور سب سے مشکل پکانا، اور اس سے بھی مشکل یہ فیصلہ کرنا کہ ‘اج کیہہ پکائیے ‘ ۔گمانِ فاضل ہے کہ خواتین میں ‘کہاں سے لیا’، اور ‘کتنے کا ہے’ کہ بعد سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال ‘اج کیہہ پکائیے ‘ہی ہے۔ بلکہ ہمارے خیال میں تو خواتین کی تعلیم میں امورِ خانہ داری کے ساتھ ساتھ ایک مضمون ‘اج کیہہ پکائیے’ بھی ہونا چاہئے ۔ بلکہ ہم اہل علم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس حوالہ سے موبائل اپلیکیشن اور ویب سائٹس کا اجرا کریں جو اس دیرینہ مسئلہ پر موسم اور ماحول کے تناظر میں ان کی درست راہنمائی کرسکیں ۔
کھانے کی ضد اور وجہ ہے بھوک ساحر لدھیانوی کہتے ہیں
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی
بات صرف آداب تک ہی نہیں رکتی صاحب بھوک چوریاں کروا سکتی ہے، ڈاکے پڑوا سکتی ہے، غیرت و حمیت کا سودا کروا سکتی ہے یہاں تک کہ عزتیں نیلام کروا سکتی ہے، گویا بھوک انسانوں سے کچھ بھی کرواسکتی ہے۔ قرآن پاک میں بھوکے کو کھانے کھلانے کی اتنی بار تاکید کی گئی ہے کہ ہمیں حیرت سے اسکی بابت استادِ محترم سے پوچھنا پڑا کہ ایسا کیوں ہے۔ فرمایا اس لیے کہ بھوک دن کئی بار لگتی ہے ۔ اگر قران پاک کو بغور دیکھیں تو جہاں متعدد بار کھانا کھلانے کی تاکید کی گئی وہیں پر اس بات کا حکم بھی ہے کہ اوروں کو اس جانب ترغیب دلائی جائے ۔ بلکہ سورۃ الحاقہ میں اللہ کریم جہنمیوں کے جرائم گنواتے ہوئے کہتے ہیں
وَ لَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡن ۔
کہ یہ شخص لوگوں کو کھانا کھلانے پر نہیں ابھارتا تھا ۔ اسی طرح سورۃ فجر میں اللہ کریم باغیوں اورسرکشوں کی نشانیاں بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
وَ لَا تَحٰٓضُّوۡنَ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ ﴿ۙ۱۸﴾
اور وہ مسکین کو کھانا کھلانے پر نہیں اکساتے .
اور سورۃ الماعون میں تو حد ہی کردی ۔ کہ وہ شخص روزِ قیامت کا ہی منکر ہے جو نمازوں میں غفلت برتتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے پر نہیں اکساتا۔ سو برادرانِ اسلام یاد رہے کہ صرف غریبوں مسکینوں کو کھانا کھلانے سے ہی فرض ادا نہیں ہوتا اس کی ہمہ وقت ترغیب بھی ضروری ہے ۔اور میں نے آپ کو ترغیب دے دی ۔