پہاڑوں کے پیالوں میں یہ وہ درسگاہ ہے جہاں ابو نے ایک استاد کے طور پر اپنے فرائض سنبھالے تو یہ ویرانے میں جلتی بجھتی لو کی طرح تھا ، جس کی مدھم روشنی کو کوئی ٹھہر کر نہیں دیکھتا
ابو نے پہلے دن سے اسے گھر کی طرح سنبھالا
یہ سکول ایک ڈھوک میں موجود ہے۔ ڈھوک گاؤں سے بھی مختصر ، جنگلوں میں بسیرے کے مقام کو کہتے ہیں۔یہاں بجلی ، پانی کی سہولت موجود نہیں اور جن گھروں سے بچے یہاں آتے ہیں وہاں ابھی تک شعور کی خوشبو نہیں آئی اور وہاں کے مکین بھیڑ بکریاں چرا کر زندگی گزار جاتے ہیں۔یہاں کے بچے بہت ذہین ہیں ، ایک طالب علم جو قوتِ گویائی سے محروم ہے اسے دور سے آنے والوں کی آہٹ کا ادراک ہوجاتا تھا اور وہ سارے اسباق سب سے جلدی یاد کرلیتا تھا۔یہی نہیں کچھ بچوں کے ساتھ ان کا پالتو کتا سکول تک آتا اور دروازے پر بیٹھا رہتا اور پھر انہی کے ساتھ واپس چلا جاتا تھا ، جب یہ بچے اس ڈھوک سے کچھ دور ہمارے گاؤں کے ہائی سکول میں داخل ہوئے تب بھی وہ کتا اس اس سکول تک آتا ہے اور دروازے پر بیٹھ جاتا ہے، جب بچے واپس آتے تو ان کے ساتھ گھر کو لٹتا ہے۔
جس قدر ان بچوں میں خواب اور شوق کی تازگی بھری ہے ، اتنا ہی وہاں کے والدین کو اپنا پرانا طرزِ حیات بدل کر بچوں کو پڑھنے کے لیے سکول بھیجنے پر قائل کرنا ایک مشکل کام رہا ہے۔
ایسے میں پڑھنے والوں کو یاد نہ ہو ، ہم نے اس سکول کے لیے فنڈز اکٹھے کیے ، اس کارخیر میں آپ میں سے ایک مخصوص شخصیت نے پوری دلجمعی سے حصہ لیا اور سمندروں پار بیٹھ کر اس کچی مٹی میں خواب بونے والوں کا ساتھ دیا
اسی فنڈ سے ہم نے یہاں ایک کمرہ تعمیر کروایا تھا جس پر سرکار کا کوئی دھیان نہ تھا ، اپنی مدد آپ کے تحت یہاں اونٹوں پر بھر بھر پانی لایا جاتا اور سخت موسموں میں بھی کسی طرح اس کام کو مکمل کیا۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ مدھم لو اپنی پوری آب و تاب سے چمکی۔
یہاں درخت لگائے گئے ، کلاس رومز کو شاندار انداز میں مزین کیا گیا اور کوئی سہولت نہ ہونے کے باوجود یہاں علم کی حرارت اور خوابوں کی روشنی بجھنے نہ دی۔یہ ابو نے اکیلے نہیں کیا ، آپ سب نے اس وقت ساتھ دیا جب اس ویرانے میں زندگی کے کرنے کو کوئی امید نہ ملتی تھی۔جب ابو کو اس کارکردگی پر appreciation letter دیا گیا تو میرا دل شدت سے چاہا کہ میں اسے آپ سب کے نام بھی کروں ، ہر وہ انسان جس نے کچھ برس پہلے ہماری مدد کی اور ان بچوں کو دعا دی تھی یہ حُسن کارکردگی آپ سب کے نام ہے اور ایک یاددہانی ہے کہ خیر کا ایک پل بھی کبھی ضائع نہیں جاتا
اور کوئی خواب چھوٹا یا عام نہیں ہوتا ، ابو کو بہت لوگوں نے کہا کہ یہاں اتنی محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ انہوں نے یہ کہہ کر جاری رکھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان بچوں تک کسی مقصد سے بھیجا ہے۔ابو نے اس درسگاہ میں ہمیشہ نہیں رہنا مگر یہ درسگاہ ہمیشہ یاد رکھے گی کہ کسی نے اپنی حیات کا ایک وسیع حصہ اس درسگاہ کو محبت دینے میں خرچ کردیا تھا۔
میں نے ابو سے سیکھا ہے جہاں پانی بھی نہ ہو ، اس مٹی پر بھی پھول پیڑ خوشبو اگائے جاسکتے ہیں۔خوابوں کے ویرانوں میں شوق کی ایک بوند بھی کافی ہوجاتی ہے۔
پڑھنے والی آنکھ مسکرائے
سائرہ اعوان
وادی سون سکیسر