اپنے لیے تو ہر کوئی جیتا بھی ہے محنت و مشقت اور اپنے سکون آسائشوں اور خواہشوں کیلئے جدوجہد کرتا ہے لیکن ایثار اپنی ذات کی پس پشت ڈالتے ہوۓ دوسروں کی ضرورتوں کا خیال رکھنے کا نام ہے ایک ایسی قربانی جو بے لوث ہوکر صرف کسی کی مدد کرنے کیلئے دی جاۓ
معروف دانشور مرحوم اشفاق احمد فرماتے تھے ایثار یہ نہیں کے تم کسی کو کھانا کھلا دو بلکے ایثار یہ ہے کے جب تم کو خود بھی بہت بھوک لگی ہو اور تم وہ کھانا کسی ضرورتمند کو کھلا دو
بقول انکے بابا جی فرماتے ہیں درد وہ ہوتا ہے جو ہمیں دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر ہو ورنہ اپنا درد تو جانوروں کو بھی محسوس ہوتا ہے
ایثار میں قربانی پنہاں ہے کے انسان اپنی ضرورتوں کو فراموش کرکے دوسروں کی ضرورت کوپورا کرنے کو ترجیح دے تاکے مخلوق خدا کا بھلا ہوسکے
ہمارے لیے ایثار کی سب سے بڑی مثال تو ہمارے والدین ہیں جو خود تکلیفیں اٹھا کر اپنی اولاد کو پالتے ہیں جنھیں یہ خواہش ہوتی ہے کے انکے بچوں کو کوئی کمی نہ ہو اچھا کھانا کھلانے سے لیکر کھلونوں تک اولاد کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں آجکل کے مہنگے تعلیمی نظام میں والدین خود کو محنت و مشقت میں ڈال کر اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو اچھے اور مہنگے سکولوں میں تعلیم دلواتے ہیں ، کتابوں ، یونیفارم اور ٹیوشن تک ہر قسم کے اخراجات پورے کرنے کیلئے کمر بستہ رہتے ہیں
والدین کے ایثار ہی کی یہ ایک مثال ہے کے عید پر اگر ماں باپ خود نئے کپڑے سلوا نہ سکیں پھر بھی وہ اپنے بچوں کیلئے ہر طرح کے جدید کپڑے اور جوتے خرید کر انھیں خوشیاں دینے کی کوشش کرتے ہیں
دوسری جانب ہم فرمانبردار اولاد کے ایثار کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے جو جوان ہوکر اپنے والدین کاسہارا بنتے ہیں اور اپنی ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر والدین کی خدمت میں کوتاہی نہیں کرتے
ہماری اسلامی تاریخ ایثار کی مثالوں سے بھری پڑی ہے ، جن میں سے ایک مشہور جنگ کا واقعہ ہے جب کئی صحابی میدان جنگ میں زخمی تھے اور پانی مانگ رہے تھے ایسے میں ایک شخص پانی کی چھاگل لیے ایک زخمی کے پاس پہنچتا ہے تو قریب ہی ایک اور زخمی بھی کراہتے ہوۓ پانی مانگتا ہے پہلے صحابی نے کہا کے جاکر پہلے اسکوپانی دے دو ، وہ شخص اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسکے پہلو میں بھی ایک زخمی پانی پانی پکارتا ہے تو وہ بھی کہتا ہے جاکر اسے پہلے پانی پلا دو ، جب وہ شخص اس آدمی کے پاس پہنچتا ہے تو وہ شہید ہو چکا ہوتا ہے وہ واپس پہلے والے کے پاس آتا ہے لیکن وہ بھی اللہ کو پیارے ہو چکے ہوتے ہیں ایسے میں وہ پہلے زخمی کے پاس پہنچتا ہے تو دیکھتا ہے وہ بھی شہید ہو چکے ہوتے ہیں
ایثار و قربانی کی یہ ایک عظیم مثال ہے کے جان کنی کے عالم میں بھی ان عظیم ہستیوں نے اپنی ذات سے بڑھ کر دوسرے کی مدد کرنا چاہی ، ایسا حوصلہ ہمت اور رب کی خوشنودی کا جذبہ انتہائی عظیم ہے جو ہمارے لیے مشعل راہ ہے
سورۃ الحشر ،آیت نمبر 9میں اللہ نے فرمایا ہے: ’’ وہ دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں خواہ خود فاقہ سے ہوں اور جو شخص اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔‘‘
بے شک ایسی قربانی سب سے بڑھ کر ہے جس میں انسان اپنی ذات کی بجاۓ دوسروں کی مدد کرنے کو ترجیج دے
ہمارے معاشرے میں بے حسی کے ڈیرے ہیں جہاں جائیداد , مال و دولت کیلئے بھائی بھائی کی جان کا دشمن بنا بیٹھا ہے بہنوں کوانکے جائز ورثے سے محروم رکھا جارہا ہے ، پڑوسیوں کی خبر نہیں کے انکے گھر میں کھانا ہے یا فاقہ ہے ، دکھلاوے کی دوڑ میں ہم ایثار و قربانی کی روایتوں کو بھول چکے ہیں
اس معاشرے کو مجموعی طور پر تنزلی سے نکالنے کیلئے ضروری ہے کے ہم اپنی اصلاح کریں ، خودغرضی لالچ جیسی مہلک اخلاقی بیماریوں سے نجات حاصل کر کے مخلوق خدا کی خدمت کرکے ہی ہم عظیم ہستیوں کی عظیم مثالوں کی پیروی کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں
ایثار و قربانی مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں