مزید دیکھیں

مقبول

خیرپور: ڈپٹی ڈسٹرکٹ اٹارنی نامعلوم افراد کی فائرنگ سے جاں بحق

خیرپور میں افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں ڈپٹی ڈسٹرکٹ...

ماسکو پر یوکرین کا اب تک کا سب سےبڑا ڈرون حملہ

ماسکو: یوکرین نے منگل کی صبح روسی دارالحکومت ماسکو...

سیالکوٹ: خصوصی افراد کیلئے 3 فیصد کوٹہ پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ افضل سکھیرا

سیالکوٹ،باغی ٹی وی (بیوروچیف شاہد ریاض) اسسٹنٹ کمشنر ایچ...

نعیم حیدر پنجوتھہ نے عمران خان سے علیمہ خان کی شکایت کردی

راولپنڈی: بشری بی بی کے فوکل پرسن نعیم حیدر...

علی امین گنڈا پور کے بیان پر عمر ایوب شبلی فراز اور بیر سٹر گوہر کی معذرت

گزشتہ روز اسلام آباد کے سنگجانی کی مویشی منڈی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جلسے کے دوران وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی جانب سے صحافیوں کے خلاف دیے گئے بیان کے بعد پارلیمنٹ کی پریس گیلری سے صحافیوں نے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔ علی امین گنڈاپور نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ عوام ان صحافیوں کو پہچانیں جو "قلم بیچ رہے ہیں”۔ اس بیان نے صحافیوں میں شدید ردعمل کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں انہوں نے پارلیمانی کارروائی سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔
واک آؤٹ کے بعد پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور بیرسٹر گوہر پریس گیلری میں پہنچے اور صحافیوں کو منانے کی کوشش کی۔ عمر ایوب نے علی امین گنڈاپور کے ریمارکس پر غیر مشروط معذرت کی اور صحافیوں کو یقین دہانی کروائی کہ علی امین گنڈاپور بھی صحافیوں سے معافی مانگیں گے۔ اس یقین دہانی کے بعد پارلیمانی رپورٹرز نے اپنا بائیکاٹ ختم کر دیا۔
اس واقعے کے بعد میڈیا میں مختلف آراء اور تجزیے سامنے آئے ہیں۔ کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور کی جانب سے صحافیوں پر اس طرح کے الزامات لگانا نہ صرف غیر ذمہ دارانہ عمل ہے بلکہ یہ جمہوری اصولوں کے بھی منافی ہے۔ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے، اور ایسے بیانات صحافیوں کی آزادی اور خودمختاری پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہیں۔صحافیوں کی جانب سے علی امین گنڈاپور کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ صحافت کو دبانے کی کوشش کسی بھی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔ صحافیوں کے مطابق، عوامی نمائندے کو اپنے الفاظ کے انتخاب میں محتاط رہنا چاہیے اور کسی بھی طرح کے الزام تراشی سے گریز کرنا چاہیے۔

دوسری جانب، شبلی فراز نے بھی اس تنازعے کے حل کے لیے کوششیں کیں اور صحافیوں کو یقین دہانی کروائی کہ حکومت آزادی صحافت پر مکمل یقین رکھتی ہے اور علی امین گنڈاپور کا بیان تمام صحافیوں سے متعلق نہیں تھا بلکہ ان کا مقصد صرف چند افراد پر تنقید کرنا تھا جو اپنے قلم کو فروخت کر رہے ہیں۔علی امین گنڈاپور کے حالیہ بیان نے ایک مرتبہ پھر سیاسی حلقوں اور میڈیا کے درمیان تعلقات میں تناؤ کو جنم دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی جانب سے اس حوالے سے مزید کوئی وضاحت یا معافی سامنے آتی ہے یا نہیں۔ اس تمام صورتحال کے دوران، پارلیمانی صحافیوں کی جانب سے احتجاج اور بائیکاٹ ایک واضح پیغام ہے کہ صحافت کی آزادی اور صحافیوں کی عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔