ضلع مظفرگڑھ کی تحصیل علی پور وسائل ہونے کے باوجود گوناں گوں مسائل کا شکار، زرخیز خطہ ضلع بنائے جانے کا حق رکھتا ہے۔
علی پور سے محبوب بلوچ کی ڈائری
ضلع مظفرگڑھ کی تحصیل علی پور جو کہ ضلعی مقام سے لگ بھگ سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، پنجاب کے پانچ دریاؤں کے حسین ملن کی غمازی کرتا یہ خطہ ایک سو چھبیس مواضعات پر مشتمل ہے، جس کا مجموعی طور پر کل رقبہ تین لاکھ چوالیس ہزار چار سو تیرہ ایکڑ ہے، جبکہ سال 2025 میں آبادی دس لاکھ کے لگ بھگ نفوس پر مشتمل ہے۔ 17ویں صدی میں علی نواب لودھی، جس کو یہ خطہ مغلیہ سلطنت کی طرف سے جاگیر کی صورت میں ملا تھا، اس نے چار دروازوں پر مشتمل یہ قلعہ بند شہر تعمیر کرایا تھا اور اسی کے نام کی نسبت سے یہ شہر علی پور کے نام سے منسوب ہے۔ علی پور قدیم دور میں ریاست سیت پور کا حصہ رہا، جو کہ علی پور شہر سے دریائے چناب کے جنوب مغربی حصے پر قریباً بیس کلومیٹر کی مسافت پر آباد ہے، جس کا شمار انسانی تاریخ کی قدیم ترین آبادیوں میں ہوتا ہے۔

قلعہ لاہور کے میوزیم میں نصب شدہ مغلیہ سلطنت کی حاکمیت میں موجود شہروں کے ناموں کے نقشے پر نظر ڈالیں تو جنوبی پنجاب کے تین شہر نمایاں نظر آتے ہیں: ملتان، اوچ شریف اور سیت پور۔ محمد بن قاسم نے جب سندھ فتح کیا تو ملتان سے قبل اس کی فوجوں نے سیت پور میں پڑاؤ ڈالا اور اس کو فتح کیا، جس کا تذکرہ قاسم فرشتہ کی معروف تاریخی کتاب ’’تاریخِ فرشتہ‘‘ میں بھی ملتا ہے۔ تاہم دریائے سندھ اور چناب میں آنے والی سیلابی لہروں نے جب سیت پور کو بار بار شدید نقصان پہنچایا تو علی پور کی جانب مقامی آبادی منتقل ہونے لگی، جس کے بعد 1837ء میں علی پور کو ٹاؤن کمیٹی کا درجہ حاصل ہوا۔ اس شہر کا پہلا چیئرمین ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھتا تھا۔ انگریز دورِ حکومت میں 1862ء میں تحصیل صدر مقام سیت پور سے علی پور منتقل کر کے علی پور کو تحصیل ہیڈکوارٹر بنا دیا گیا۔

علی پور شہر کے مشرق میں نو کلومیٹر کے فاصلے پر جنوبی پنجاب کا آخری ہیڈ ورکس پنجند بیراج واقع ہے، جو کہ معروف تفریحی مقام اور جنوبی پنجاب کی زرعی معیشت میں اہم کردار کا حامل ہے، جبکہ علی پور شہر کے مغرب میں بیس کلومیٹر کے فاصلے پر پاکستان کی زرعی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا عظیم دریا سندھ واقع ہے۔ تین اطراف سے دریاؤں میں گھری ہوئی یہ تحصیل انتہائی زرخیز زرعی رقبے پر مشتمل ہے، تاہم حکومتی عدم توجہی کے باعث اس خطے سے ملکی معیشت کو جو فائدہ پہنچنا چاہیے تھا وہ حاصل نہیں کیا جا سکا۔ اس وقت علی پور شہرجو کہ میونسپل کمیٹی کے چوبیس وارڈز پر مشتمل ہے کی آبادی کم و بیش ایک لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ شہر کے قرب و جوار میں قائم ہونے والے جدید رہائشی منصوبوں نے اس شہر کا نقشہ بدل دیا ہے۔ کئی اقامتی نجی تعلیمی اداروں میں ملک بھر سے بچے اس شہر کا رخ کر کے اپنی علمی تشنگی بجھاتے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے طالب علموں کی تعداد زیادہ ہے۔

یہ زرخیز خطہ اپنے سفید انار کی پیداوار کے حوالے سے بھی اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ میٹھے رس دار سفید انار شاید ہی دنیا کے کسی اور خطے میں کاشت ہوتے ہوں، تاہم عدم توجہی کی وجہ سے سفید انار کے باغات کو کچھ عرصہ قبل لگنے والی بیماریوں نے مالکان کو مجبور کر دیا کہ وہ ان باغات کو ختم کر دیں۔ کئی ہزار ایکڑ پر مشتمل باغات اجڑ گئے، مگر اس شاندار نعمت کو بچانے کے لیے ابھی تک کسی سطح پر کوئی اقدام نہیں اٹھایا جا سکا۔ تحصیل علی پور میں پیدا ہونے والی کپاس کی فصل بھی اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ ایک وقت تھا جب نیویارک کی کاٹن مارکیٹ میں علی پور کی کاٹن اپنے معیاری ہونے کے حوالے سے اپنا الگ مقام رکھتی تھی اور پاکستانی معیشت میں اپنا کردار ادا کرتی تھی۔ تاہم تحصیل علی پور میں زراعت بیسڈ صنعتوں کے قیام، جن میں ٹیکسٹائل ملز، مختلف جوسز کی فیکٹریاں اور پھلوں کو محفوظ بنانے کے لیے ضروری اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کا کاشتکار دیگر فصلوں کی جانب راغب ہونے پر مجبور کر دیا گیا، جس میں گنے کی کاشت بھی شامل ہے۔

اگر ہم 2025ء کے علی پور شہر کی بات کریں تو یہ وہ بدقسمت خطہ ہے جو ترقی کی شاہراہ پر اپنے کئی ہم عصر شہروں سے پیچھے رہ گیا ہے۔ صوبہ پنجاب میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے پہلی خاتون وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز شریف نے جب سے عہدہ سنبھالا ہے، آئے روز شہریوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے نت نئے اقدامات اٹھانے کا سلسلہ جاری ہے، تاہم اس کے نتائج تحصیل علی پور کے حوالے سے ابھی تک ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کے مترادف ہیں۔ اس کی ذمہ داری کسی ایک پر عائد نہیں ہوتی۔ گزشتہ سال صوبہ پنجاب کے سالانہ بجٹ 2024/25 میں علی پور۔ مظفرگڑھ۔ ہیڈ پنجند۔ ترنڈہ محمد پناہ سابقہ شاہراہ مغربی پاکستان روڈ کے لیے اسمبلی فلور پر صوبائی وزیر خزانہ میاں مجتبیٰ شجاع الرحمٰن نے نوید سنائی تھی کہ چونتیس ارب روپے سے یہ سڑک بحالی کا منصوبہ شروع کیا جا رہا ہے، مگر مالی سال تمام کا تمام گزر چکا، اس روڈ پر ایک اینٹ بھی نہیں لگی۔ اس روڈ پر قومی اسمبلی کے کم و بیش چھ اور صوبائی اسمبلی کے بارہ سے تیرہ حلقے آتے ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ دو درجن کے لگ بھگ اراکینِ اسمبلی میں سے کسی ایک نے بھی اسمبلی یا دیگر کسی فورم پر اس حوالے سے آواز بلند کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس سڑک کو ’’قاتل روڈ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اس سڑک سے مقامی لوگ اپنے کسی پیارے کی لاش یا زخمی حالت میں نہ اٹھاتے ہوں۔ یہ سڑک تین صوبوں کی ٹریفک کو سہولت فراہم کرتی ہے۔ تحصیل علی پور کے لیے یہ سڑک دوسرے علاقوں سے رابطے کا واحد ذریعہ ہے۔

اس تحصیل میں ریلوے یا فضائی سروس کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ خطے کو یہ اعزاز بھی اس جدید دور میں حاصل ہے کہ صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ دریائی پتن اسی تحصیل میں واقع ہیں۔ یہاں پر دریائے سندھ پر پل نہ ہونے کی وجہ سے مقامی آبادی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے دریائی پتنوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ تحصیل علی پور کے ساٹھ سے زیادہ مواضعات دریائے سندھ کے پار ضلع راجن پور کی سرحد کے ساتھ ساتھ کبیر گوپانگ سے بیٹ عیسیٰ تک کم و بیش سو کلومیٹر شمال سے جنوب تک جاتی پٹی کی صورت میں موجود ہیں۔ ہزاروں لوگ دریائے سندھ پر موجود پتنوں، جن میں موچی والہ، گبر ارائیں، کندائی، سرکی اور دریائے چناب پر شہر سلطان، کندرالہ، مڈوالہ، بیٹ نوروالہ شامل ہیں، سے روزانہ آتے جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دریائے سندھ پر پختہ پل تعمیر کیا جائے، جس کے لیے گبر ارائیں یا کندائی تحصیل علی پور کے مقامات اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کے اعتبار سے نہایت اہم ہیں۔ اس سے نہ صرف تحصیل علی پور کی معیشت میں انقلاب برپا ہوگا بلکہ بہاول، ملتان سے ضلع راجن پور اور بلوچستان جانے والے مسافروں کو بھی وقت کی بچت اور سفری اخراجات میں کمی کا فائدہ پہنچے گا۔ امید ہے وزیر اعلیٰ پنجاب اس جانب ضرور اپنی توجہ مبذول کریں گی۔

تحصیل علی پور کے عوامی مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ضلعی صدر مقام سے ایک سو کلومیٹر کا فاصلہ بھی ہے۔ علی پور تحصیل کا جنوب میں واقع آخری موضع بیٹ عیسیٰ ہے۔ آپ حیران ہوں گے وہ ضلعی صدر مقام سے پونے دو سو کلومیٹر دور بنتا ہے۔ آپ خود اندازہ لگا لیں کہ اس علاقے کے رہائشیوں کو کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تحصیل علی پور سے 1993ء میں جتوئی کو الگ کر کے تحصیل بنا دیا گیا۔ گزشتہ سال مظفرگڑھ شہر سے ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر موجود کوٹ ادو کو بھی ضلع بنا دیا گیا ہے لیکن پونے دو سو سال قدیم تحصیل جو کہ اپنے وسائل اور آبادی کے لحاظ سے مکمل طور پر ایک الگ ضلع بننے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر مسلسل نظر انداز کیا گیا ہے۔ علی پور کو ضلع ، اس کے ساتھ جتوئی کو منسلک کر کے بنایا جانا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ یہی اس خطے کے ہر ایک باسی کی تمنا ہے۔ یہ ضلع قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی کی چار سے زائد نشستوں پر مشتمل ہوگا۔ ضلعی دفاتر کے لیے بھی علی پور شہر میں سرکاری عمارات موجود ہیں۔ ماہِ جون میں نیو جوڈیشل کمپلیکس علی پور میں عدالتیں منتقل ہو رہی ہیں، جبکہ پرانا جوڈیشل کمپلیکس بھی صرف پندرہ سال پرانا ہے، جو کہ ضلعی دفاتر کی ضروریات کے لیے آئندہ سو سال کے لیے بھی کافی ہے۔

Shares: