اللہ ہی جانے کون بشر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں شرابی میں شرابی
عزیز میاں قوال
6 دسمبر 2000: یوم وفات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بین الاقوامی شہرت یافتہ پاکستانی قوال عزیز میاں 27 جولائی 1942ء پاکستان کے نامور قوال عزیز میاں یوپی کے بلند شہر میں پیدا ہوئے قیام پاکستان کے بعداہل خانہ کے ہمراہ لاہور میں سکونت اختیار کی۔معروف قوال استاد عبدالوحید سے قوالی کا فن سیکھنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے عربی، فارسی اور اردو میں ایم اے کیا۔ ان کا نام عبدالعزیز تھا جب کہ ”میاں“ ان کا تکیہ کلام تھا جس کی وجہ سے وہ عزیز میاں کے نام سے جانے جاتے تھے میواتی قوالی کا انداز عزیز میاں نے متعارف کروایا قوالی کے علاوہ عزیز میاں علم جعفر ، علم اعداد اور علم نجوم و رمل کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے۔ اور لوگ ان کے اس علم سے بھی فیض یاب ہوتے رہے ۔
1966 میں شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے سامنے یادگار پرفارمنس پر انعام و اکرام اور گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔عزیز میاں قوال اپنی بیشتر قوالیاں خود لکھتے تھے، اس کے علاوہ انہوں نے علامہ محمد اقبال، صادق اور قتیل شفائی کا کلام بھی بارہا گایا لیکن ان کی کامیابی کا راز صرف ان کی آواز نہیں تھی، عزیز میاں نہ صرف ایک عظیم قوال تھے بلکہ ایک عظیم فلسفی بھی تھے۔انہیں اپنے ابتدائی دور میں فوجی قوال کا لقب ملا کیونکہ ان کی شروع کی سٹیج کی بیشتر قوالیاں فوجی بیرکوں میں فوجی جوانوں کے لیے تھیں۔
عزیز میاں کو شاعری پڑھنے میں کچھ ایسی مہارت حاصل تھی جو سامعین پر گہرا اثر چھوڑ جاتی تھی۔ان کی بیشتر قوالیاں دینی رنگ لیے ہوئے تھیں گو کہ انہوں نے رومانی رنگ میں بھی کامیابی حاصل کی تھی۔
وہ قوالی گانے میں اپنا ایک منفرد انداز رکھتے تھے۔ ان کی مشہور قوالیوں میں … میں شرابی میں شرابی… تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے…اللہ ہی جانے کون بشر ہے …سرفہرست ہیں۔ مزید برآں ان کی ایک نعتیہ قوالی ’’یا نبی یا نبی‘‘ نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ عزیز میاں 6 دسمبر 2000ء کو ایران کے شہر تہران میں وفات پاگئے اور ملتان میں احاطہ مزار بابا ناظر حسین (شہتوتاں والی سرکار) سیتل ماڑی میں آسودۂ خاک ہوئے۔
منقول