سیلاب کے لگائے گئے زخم ابھی تک نہیں بھرے ۔ لیکن وطن عزیز کے درمند مرہم خوب لگا رہے ہیں ۔ کچھ احباب کی جانب سے یہ خبریں موصول ہورہی ہیں کہ کافی گھروں کی تقسیم مکمل ہوچکی ہے لیکن کام ابھی بھی جاری ہے ۔ خاکسار کے چند سوال ہیں جو صرف درمندوں کو ہی چبھے گے اور فکر پیدا کریں گے ۔

یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے یہی اثرات اگر اگلے سالوں میں سیلاب کی صورت رونما ہوتے ہیں تو کیا یہ گھر محفوظ رہیں گے ؟

اگر نہیں تو یہ تخریب و تعمیر کا سلسلہ آخر کب تلک ہے ؟

ماہرین کی جانب سے ریڈ زون میں تعمیر کیے گئے گھروں کی قانونی و شرعی حیثیت کیا ہوگی ؟

اگر ماہرین کسی علاقے کو خطرناک کہہ کر تعمیری کام سے روک رہے ہیں تو کیا وہاں پر تعمیر کرنا سمجھداری ہے ؟

لیکن مجھے یہ اعتراف ہے کہ مجھ سے بھی counter سوال پوچھے جاسکتے ہیں کہ پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟

میں کہوں گا کہ حکومت وقت ڈیم بنائے اور تخریبی پانی کو تعمیری پانی میں بدلے ۔۔۔۔

آپ مجھ پر ہنسے گے کہ حکومت ؟؟؟؟۔

یقینا اس نکتے پر میں بھی لاجواب ہوجاوں گا کہ وطن عزیز کو آج تلک جو بھی حکومت میسر آئی وہ تو بانجھ ہی رہی اور ہے ۔۔۔۔ کتنے ہی ماہرین ہیں جو ایسی تجاویز دے رہے ہیں جن سے ان آفات کی تباہیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ لیکن مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہو ۔

بیرون ممالک سے آئی ہوئی امداد کا کچھ پتہ نہیں ۔ حاکم وقت ان کو ظاہر کرکے معاملات واضح کیوں نہیں کرتا ۔؟

کیا مخمصہ ہے ۔۔۔ کیا بے بسی ہے ۔۔۔ وطن عزیز کو خدا اپنی رحمت کے حصار میں لے ۔۔۔ کیونکہ جن کا کوئی نہیں ہوتا ان کا اللہ ہوتا ہے ۔

Shares: