ایک پھول کا حُسن اُس کلی کے صبر میں ہے جس نے اس حسن کو سمیٹ کر رکھا ہوتا ہے. دنیا کی نظروں سے دور یہ کلی پرت در پرت اپنے پتے ترتیب سے بنا رہی ہوتی ہے. ایک لاروا اپنے حول میں بند تتلی کے وہ پر بہت صبر سے بنا رہی ہوتی ہے جو اس بظاہر بدشکل کیڑے کو خوبصورت رنگ دے کر قوت پرواز دے گا.
ہم لوگ اس صبر پر گواہ نہیں ہوتے. ہم تو کھلے ہوئے پھول اور اس پر لپکتی خوبصورت پروں کی تتلیاں دیکھ کر سمجھتے ہیں شائد یہ پیدا ہی ایسے ہوئے. ہم انسان جو دیکھتے ہیں اسے ہی مان لیتے ہیں. اس لئے ایک سادہ سا سوال بھی ہمیں کنفیوز کر دیتا ہے جیسے کوئی پوچھ لے کیا آپ خود کو پسند کرتے ہیں.؟
ہماری اکثریت خود کو ہی نہیں جانتی. کیونکہ خود کی پسندیدگی کا مطلب اللہ کے دئے پر مکمل راضی ہونا ہے. ایسے لوگ خود پر دوسروں کی رائے سے متاثر نہیں ہوتے. ان کو خوش رہنے کیلئے باہر کے اسباب کی ضرورت نہیں ہوتی. یہ خود کے ساتھ خوش رے سکتے ہیں اور منفی لوگوں کیلئے ان کی ذات پر صبر کے ویسے ہی پردے ہوتے ہیں جیسے کلی یا لاروے نے اپنے رنگ بچائے ہوتے ہیں.
اس لئے ہم خود کو پسند کرنے کا دعویٰ کرتے ہچکچاتے ہیں. ہم دوسروں کے رنگ دیکھ کر ان کو خوش قسمت اور خود کو بدقسمت سمجھتے ہیں. اسی بدقسمتی میں ہم اپنی زندگی کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں. شائد کچھ رنگ ہم بھی جمع کر لیں؟ اور زندگی ایک دوڑ بن جاتی ہے. ہم تھک جاتے ہیں. خود سے راضی شخص جبکہ ایک صحرا میں بھی ایسے ہی خوش ہوگا جیسے یہ کوئی گلستان ہو. خود سے راضی اپنے بنانے والے سے راضی ہوتا ہے. اور مالک اس سے راضی ہوکر اسے وہ رنگ دیتا ہے جسے دیکھ کر دوسرے اسے خوش قسمت سمجھتے ہیں.