یہ تقریباً سولہ سال پہلے کا واقعہ ہے جب زرعی یونیورسٹی میں بی ایس سی میں پڑھتا تھا۔ مہینے میں ایک بار فیصل آباد سےاپنے گاؤں فتح پور لیہ جانا ہوتا تھا۔فیصل آباد سے فتح پور تب ایک ہی اے سی ٹائم جاتا تھا خواجہ ٹریولز سے ڈیڑھ بجے۔ اگر کبھی یہ مس ہو جاتا تھا تو بہت خوار ہو کر جانا پڑتا تھا۔ تب عید کا یا محرم کا موقع تھا۔ ایسے مواقع پر ہوسٹلز بند ہو جاتے تھے اس لیے لازمی جانا ہوتا تھا سب کو۔
میں نے فون پر ہی سیٹ بک کروا لی تھی۔ کلاس لے کر آیا تو جلدی جلدی کھانا کھایا اور بیگ اٹھا کر زیرو پوائنٹ تک پہنچتے پہنچتے ایک بج چکا تھا۔ عام طور پر زیرو پوائنٹ سے یا تو رکشہ مل جاتا تھا یا پھر موٹرسائیکل پر مین گیٹ یا جی پی گیٹ تک لفٹ مل جاتی تھی اور وہاں سے رکشہ لے لیتے تھے۔ لیکن اس دن نہ کوئی رکشہ خالی ملا نہ ہی کوئی لفٹ۔ سوا ایک ہوا تو اب مجھے پریشانی ہونے لگی۔ مزید ایک دو منٹ گزرے تو اب مجھے لگا کہ اگر فوراً سے رکشہ نہ ملا تو نہیں پہنچ پاؤں گا۔
یہ گاڑی مس ہو جاتی تو پھر کوئی اور نان اے سی بھی نہیں ملنی تھی کیوں کہ سب فل ہو نی تھیں۔ اس لیے صدقِ دل سے دعا کی کہ یا اللہ کوئی سبب بنا دے اور مجھے گاڑی تک پہنچا دے۔ اس قدر خشوع وخضوع سے شاید ہی میں نے کبھی دعا کی ہو۔ ابھی دعا کی ہی تھی کہ ایک گاڑی آئی ، میں نے لفٹ مانگی۔ وہ رک گئی۔میں پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ گاڑی میں دو لوگ سوار تھے اور آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ مجھ سے انھوں نے کچھ نہیں پوچھا کہ کہاں تک جانا۔ میں نے یہی سوچا کہ اگر تو نڑوالا روڈ کی طرف مڑے تو بیٹھا رہوں گا، اگر کسی اور طرف مڑے تو اتر جاؤں گا۔ مین گیٹ سے وہ نڑوالا کی طرف ہی مڑ گئے۔ آگے میں نے یہی سوچا کہ کوتوالی روڈ کی طرف مڑے تو بیٹھا رہوں گا ورنہ کہوں گا کہ اتار دیں۔ وہ عید گاہ روڈ سے ہوتے ہوئے کوتوالی روڈ پر آئے۔ اب مجھے یہی تھا کہ چناب چوک کے پاس اتر جاؤں گا۔ چناب چوک سے پہلے ایک چھوٹا سا روڈ خواجہ ٹریولز کی طرف جاتا ہے وہاں سے تو مڑے اور خواجہ ٹریولز کے سامنے رکے۔
میری گاڑی بس تیار کھڑی تھی۔ میں جلدی سے کار سے نکلا اور گاڑی کی طرف بھاگا۔ کنڈیکٹر مجھے دیکھتے ہی بولا کہ فلاں سیٹ آپ نے بک کروائی تھی، میں نے اثبات میں سر ہلایا تو اس نے مجھے گاڑی میں چڑھنے کو کہا اور میرے بس میں داخل ہوتے ہی ڈرائیور نے بس چلا دی۔
تب مجھے خیال آیا کہ یار کاروالوں کا تو شکریہ بھی ادا نہیں کیا۔ میں نے باہر دیکھا مگر وہ کار جا چکی تھی۔ بڑا افسوس ہوا کہ شکریہ ادا نہیں کر سکا۔مجھے نہیں معلوم ہو سکا کہ وہ اس ساتھ والے کو اڈے پر چھوڑنے آئے تھے یا پھر کسی کو لینے آئے تھے۔ نہ انھوں نے مجھ سے کوئی بات کی نہ میں نے ان کی باتوں میں کوئی مداخلت کی۔ بس اللہ نے میری دعا کے نتیجے میں ایسا سبب بنایا کہ مجھے پورے وقت پر اڈے پر پہنچا دیا۔
کیا آپ کےساتھ کبھی ایسا ہوا ہے کہ صدقِ دل سے کوئی دعا مانگی ہو اور وہ یوں پوری ہوئی ہو۔ اب بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو بے اختیار اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ کیسے اس نے میری دعا قبول کی تھی۔
اس وقت میری پریشانی وہی تھی، چھوٹی تھی یا بڑی مگر یوں اس کا سبب بنے گا میں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ یقیناً اللہ مسبب الاسباب ہے۔ اگر کوئی بھی پریشانی، دکھ ہے تو اللہ سے سچے دل سے مانگیں۔ وہ ایسے پوری کرے گا کہ جو آپ کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا۔