مزید دیکھیں

مقبول

لنڈی کوتل:پاک افغان جرگے میں طورخم بارڈر کھولنے پر سیز فائر کا اتفاق

لنڈی کوتل(باغی ٹی وی رپورٹ)خیبر میں پاک افغان طورخم...

میرپورخاص:عوامی فلاحی سرگرمیوں کو اجاگر کیا جائے. ایڈیشنل کمشنر

میرپورخاص، باغی ٹی وی (نامہ نگار سید شاہزیب شاہ)...

آئی ایم ایف مشن کا سندھ کی معاشی کارکردگی پر اعتماد کا اظہار

اسلام آباد: پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی...

شائستہ کیساتھ گہرا تعلق تھا، مگر اب ہم زیادہ ملتے نہیں،ساحر لودھی

کراچی: پاکستان کے مشہور اداکار و میزبان ساحر لودھی...

ناروے میں اردو زبان و ادب کے سب سے بڑے خادم اور عالمی اردو مشاعروں کے بانی جمشید مسرور

ہر جلوہ جمال سے تنگ آ چکا ہے جی
اک روز زندگی سے بھی بھر جانا چاہیے

صدارتی ایوارڈ یافتہ شاعر ابن شاعر ابن شاعر ناروے میں اردو زبان و ادب کے سب سے بڑے خادم اور عالمی اردو مشاعروں کے بانی جمشید مسرور

تحریر و تعارف آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناروے میں مقیم اردو، پنجابی اور نارویجن زبان کے نامور ادیب ، مصنف ،مترجم اور شاعر جناب جمشید مسروراس لحاظ سے بہت ہی انفرادیت کے حامل شاعر ہیں کہ وہ خود بھی شاعر ان کے والد صاحب بھی شاعر اور ان کے دادا بھی شاعر تھے اور پھر یہ بات بھی خوشگوار حیرت کا باعث ہے کہ جمشید مسرور نے صرف 8 سال کی عمر میں پہلا شعر کہا اور وہ بھی وزن کے لحاظ سے درست تھا ۔ جمشید مسرور 4 اکتوبر 1946 کو لاہور پاکستان میں پیدا ہوئے جبکہ ان کا خاندان قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان منتقل ہو گیا تھا۔ ان کا اصل نام جمشید اقبال رانا ہے اور ادبی نام جمشید مسرور ہے ۔ ان کے والد صاحب کا نام ڈاکٹر بشیر احمد مسرور کپور تھلوی اور دادا محترم کا نام استاد مولوی احمد بخش رنجور کپور تھلوی ہے ۔ جمشید صاحب کے والد صاحب اور دادا محترم دونوں اردو کے شاعر اور صاحب کتاب تھے ۔ اس طرح دیکھا جائے تو ایک طرح سے شاعری انہیں ” وراثت ” میں ملی ہے ۔ جمشید صاحب لاہور میں تعلیم کے حصول کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے وابستہ ہو گئے ۔ وہ شاعری اور نثر دونوں میں طبع آزمائی کرتے رہے ہیں ۔
1975 میں وہ اپنے قریبی دوستوں سے گہرے تعلقات کے باعث ناروے کے شہر اوسلو منتقل ہو گئے ۔ انہوں نے 1975 میں ہی روبینہ قریشی صاحبہ سے شادی کی ۔ روبینہ قریشی صاحبہ جمشید مسرور صاحب کے ساتھ ازدواجی رشتے میں منسلک ہونے کے بعد خود کو ” روبینہ رانا ” کہلانے لگیں اور 1978 میں وہ بھی اپنے خاوند محترم کے ہاں مستقل طور پر ناروے منتقل ہو گئیں ۔ اور ناروے میں وہ روبینہ رانا کے نام سے ہی مشہور ہوئیں انہوں نے ناروے کی سیاست میں بڑا فعال کردار ادا کیا اور بڑا نام پیدا کیا یہی وجہ ہے کہ 2003 میں ان کی وفات کے بعد حکومت کی جانب سے اوسلو میں ایک گلی کو ” روبینہ رانا اسٹریٹ ” کے نام سے منسوب کر دیا گیا ۔ جمشید صاحب کے ہاں روبینہ صاحبہ سے اولاد میں 3 بچے ہیں ۔

جمشید مسرور ناروے میں ادبی حوالے سے بہت فعال رہے ہیں انہوں نے وہاں ” بازگشت ” کے نام سے ایک ماہانہ ادبی رسالہ بھی جاری کیا جو کہ 20 سال تک اوسلو سے شائع ہوتا رہا ۔ ناروے میں ان کا ایک بہت بڑا ادبی کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اوسلو میں اب تک 35 سالانہ عالمی مشاعرے منعقد کیے ہیں اس کے علاوہ انہوں نے مصنف اور ہدایت کار کی حیثیت سے اوسلو میں 2 ڈرامے بھی اسٹیج کیے جن میں اردو، انگریزی، نارویجن اور پنجابی زبان کا خوب صورت امتزاج کیا گیا ۔

ووڈ بری یونیورسٹی لاس اینجلس کی ایما پر وہیں کی سکالر محترمہ پروفیسر ڈاکٹر ایلیزابیتھ سینڈبرگ نے جمشید مسرور کی شاعری کی ا نگریزی زبان میں تخلیق نو کی اور اسے Elusive shadows کے نام سے شائع کروایا۔ اس کتاب کے اجرا کی خوشی میں جمشید مسرور کو یونیورسٹی کے مہمان کے طور پر مدعو کیا گیا اور کولمبیا یونیورسٹی سمیت جمشید مسرور کو چھ مختلف امریکی شہروں میں مدعو کیا گیا اور تقریبات منعقد کی گئیں۔

جمشید مسرور صاحب کی اب تک 5 کتابیں لاہور اور اوسلو سے شائع ہو چکی ہیں جن میں 1 شاخ منظر، میری خوشبو میرے پھول، لمحوں کے سمندر( ذو لسانی اردو اور نارویجن ) ، دیوار ہوا پر آئینہ ، پچھلے برس کی دھوپ( ذو لسانی اردو اور نارویجن ) شامل ہیں ۔ جمشید مسرور صاحب کو پاکستان، ناروے اور ہندوستان سمیت بہت سے ادبی اعزازات سے نوازا گیا ہے جن میں پاکستان سے تمغہ امتیاز صدارتی ایوارڈ جوکہ صدر مملکت ممنون حسین صاحب کی جانب سے عطا گیا گیا ۔ پنجاب پاکستان کے وزیر اعلی چوہدری غلام حیدر وائن اتر پردیش بھارت کے گورنر رمیش سپی، ناروے اور ووڈ بری یونیورسٹی لاس اینجلس امریکہ کی جانب سے بھی اعلی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں ایوارڈز سے نوازا گیا ہے ۔

جمشید مسرور نے اپنے دوست اور 25 کتابوں کے مصنف اور شاعر” ارلنگ کٹلسن ” کے ایما پر ان کی ایک کتاب کا” راکا۔ داستان گو ” کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا ۔ اس کے علاوہ سولم پبلشرز اوسلو کی فرمائش پر” امراؤ جان ادا ” کا نارویجئن زبان میں ترجمہ کیا جس میں جمشید مسرور کو ان کےاپنے شاگرد اسکالر اردو ایم فل آئی وند یوہان سٹین برگ کی مشاورت اور معاونت حاصل رہی۔

جمشید مسرور کا پنجابی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ زیر طباعت ہے ۔ انگلینڈ کی ایک فلم کمپنی نے ناروے کے مایہ ناز شاعر و ڈرامہ نگار ہنرک ابسن کی مشہور طویل نظم Terje Vigen کا دنیا کے نو مشہور شعرا سے ترجمہ کروایا جن میں جمشید مسرور بھی شامل ہیں اور اس نظم کی فلم بھی بنائی گئی۔ اردو ورشن فلمانے کے لئے جمشید مسرور کی سفارش پر بھارتی اداکار عرفان خان کو جمشید مسرور سمیت لنڈن مدعو کیا گیا جہاں دونوں نے پکچرائزیشن کی تکمیل کروائی یہ فلم اسلام آباد میں نمائش کے لئے پیش کئے جانے کا پروگرام تھا لیکن ان دنوں شدید دہشت گردی کی وجہ سے پروگرام منسوخ کر دیا گیا تاہم فلسطین میں عربی ورشن اور جاپان میں جاپانی ورشن کی نمائش پروگرام کے مطابق کی گئی جمشید مسرور نے بارہ نمائندہ نارویجئن شعرا کے کلام کو اردو میں ڈھالا ہے جو کہ کتابی شکل میں طباعت کا منتظر ہے۔

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنہا ہر ایک رہ گزر سے گزر جانا چاہیے
جیسے جیے ہیں ویسے ہی مر جانا چاہیے

جانے یہ دل کا درد کہاں تک ستائے گا
دریا چڑھے تو اس کو اتر جانا چاہیے

بجھ کر وجود شعلہ سلگتا ہے کس لیے
میں راکھ ہوں تو مجھ کو بکھر جانا چاہیے

آوارگی میں کب سے گزرتی ہے رات بھی
آخر کبھی تو شام کو گھر جانا چاہیے

اے دوستو کھڑے ہو مرے گرد کس لیے
کوئی بتائو مجھ کو کدھر جانا چاہیے

ہر جلوہ جمال سے تنگ آ چکا ہے جی
اک روز زندگی سے بھی بھر جانا چاہیے

جمشید سن رہے ہو سفر کی پکار کیا
طوفان کو یوں نہ رہ میں ٹھہر جانا چاہیے