آج کل کی سیاست میں جب بھی کسی اہم مسئلے پر بات کی جاتی ہے، تو بعض اوقات ایسے سوالات اُٹھتے ہیں جو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اسرائیل کی مذمت پر امریکہ کے ناراض ہونے کے حوالے سے عمران خان کے کردار پر سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں، چند سوالات ابھر کر سامنے آتے ہیں جو سیاسی رہنماؤں اور عوام کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔

اس وقت حاجی کریم، جو کہ ایک چھوٹے سے گاؤں بگن کا مقامی لیڈر ہے، اور کاظم، جو ٹی ٹی پی کا مقامی کمانڈر ہے، ان دونوں نے مل کر پارا چنار امن معاہدہ سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے خوراک اور امدادی سامان لے کر جانے والے قافلے پر حملہ کیا اور اس کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا عمران خان اور پی ٹی آئی کے باقی رہنماؤں میں سے کوئی ایک حاجی کریم اور کاظم کی مذمت کرے گا؟ اور کیا ان دونوں کو دہشت گرد قرار دے گا؟ یا پھر اس پر بھی امریکہ ناراض ہوگا؟

یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ جب ندیم افضل چن نے کہا تھا کہ عمران خان نے پاک ایران گیس پائپ لائن اور سی پیک جیسے منصوبوں پر امریکہ کے دباؤ کی وجہ سے کام روک دیا تھا، تو پی ٹی آئی کے حامیوں نے اس بات پر شدید ردعمل ظاہر کیا تھا۔ وہ یہ کہتے تھے کہ عمران خان نے ہمیشہ امریکی مداخلت کے خلاف آواز اُٹھائی ہے اور وہ پاکستانی قوم کے مفادات کا دفاع کرتا ہے۔مگر اب حالیہ دنوں میں یہ صورتحال بدلی ہوئی نظر آتی ہے۔ عمران خان کے موقف میں تبدیلی آئی ہے اور وہ اسرائیل کی مذمت کرنے سے اجتناب کر رہے ہیں۔ اس کے پیچھے یہ جواز پیش کیا جا رہا ہے کہ اگر عمران خان اسرائیل کی مذمت کرے گا تو امریکہ ناراض ہوگا، لہذا وہ خاموش ہیں۔ اس پر یوتھیوں میں بھی ایک عجیب سی خاموشی چھا گئی ہے اور اب وہ بے شرمی سے اس حقیقت کو تسلیم کر رہے ہیں کہ عمران خان کو امریکہ کے ناراض ہونے کا خوف ہے۔

یہ صورتحال پاکستانی سیاست میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتی ہے، جہاں ایک طرف قومی مفادات کی بات کی جاتی ہے، تو دوسری طرف عالمی دباؤ اور تعلقات کی پیچیدگیاں بھی نظر آتی ہیں۔ یہ وقت پاکستانی سیاست دانوں کے لیے ایک امتحان ہے کہ وہ کس طرح اپنے اصولوں کے مطابق فیصلے کرتے ہیں اور عالمی دباؤ کے باوجود اپنے عوام کے مفادات کو کیسے تحفظ دیتے ہیں۔

عمران خان جیل میں پاؤں پکڑنے کو تیار

پارا چنار میں امن معاہدے کو سبو تاژ کرنے کی کوشش کرنے والا حاجی کریم پی ٹی آئی کا حامی

ڈی جی آئی ایس پی آر کی مختلف مذاہب کے نمائندگان سے خصوصی نشست

Shares: