پاکستان کی سرزمین ہمیشہ سے قربانی، ایثار اور ایمان کی خوشبو سے مہک رہی ہے۔ یہ وہ دھرتی ہے جس نے اپنے سپوتوں کے خون سے وفا کے چراغ جلائے، اور ہر دور میں دشمن کے سامنے سربلند رہی۔ آج جب فتنۂ خوارج اور دہشت گردی کے سائے ایک بار پھر امن کی روشنی کو گہنانے کی کوشش کر رہے ہیں، تو وطنِ عزیز کے فرزندانِ توحید پھر سے ایک عزمِ نو کے ساتھ میدان میں صف بستہ دکھائی دیتے ہیں۔نیشنل ایکشن پلان کی صورت میں قوم کے پاس ایک ایسی حکمتِ عملی موجود ہے جو محض قانون نہیں بلکہ ایک عہد، ایک پیمان، اور ایک عزم ہے—کہ وطن کے امن پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔پاک فوج کے ترجمان کی حالیہ پریس کانفرنس میں جو پیغام قوم کے نام آیا، وہ دراصل ریاستی عزم کی گونج تھی۔نیشنل ایکشن پلان پر عمل اور قومی اتحاد ہی امن و امان کی ضمانت ہیں،

قوم جانتی ہے کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی سنگلاخ وادیوں میں جو جوان دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے ہیں، وہ محض سپاہی نہیں، بلکہ اس قوم کی غیرت اور ایمان کے امین ہیں۔ ان کی شہادتیں، ان کی قربانیاں کسی فرد یا ادارے کی نہیں، بلکہ پورے وطن کی اجتماعی میراث ہیں۔یہی وہ چراغ ہیں جو اندھیروں میں روشنی بن کر جلتے ہیں، اور جن کے دم سے وطن کے افق پر امید کے دیے روشن رہتے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی امت میں انتشار، منافقت یا خوف پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، فتنۂ خوارج نے ہی اس کی بنیاد رکھی۔آج بھی وہی ذہنیت، وہی زہر، نئے چہروں اور نئے ناموں سے وطنِ عزیز میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنے والے یہ عناصر کبھی مذہب کا لبادہ اوڑھ کر اور کبھی آزادی کے نام پر قوم کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں۔انہی کے تعاقب میں افواجِ پاکستان نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، اور یہ قربانیاں اس بات کی ضمانت ہیں کہ قوم دہشت گردی کے اس اندھیرے کو ہمیشہ کے لیے مٹا کر دم لے گی۔

یہ کوئی راز نہیں کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے ازلی دشمن بھارت کا ہاتھ ہے۔ایک طرف وہ دہشت گردی کو فروغ دے کر پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتا ہے، تو دوسری طرف عالمی برادری کے سامنے امن کا علمبردار بننے کا ناٹک کرتا ہے۔مزید افسوس کا مقام یہ ہے کہ افغانستان، جو کبھی برادر اسلامی ملک کہلاتا تھا، آج خاموش تماشائی بن کر دہشت گردوں کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام کرنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔کیا ایک اسلامی ہمسایہ ملک کا یہ شایانِ شان رویہ ہے؟کیا یہ امتِ مسلمہ کی اخلاقی ذمہ داری نہیں کہ وہ امن کے دشمنوں کے خلاف صف بستہ ہو جائے؟یہ رویہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہیے، پاکستان کا صبر کمزوری نہیں بلکہ حکمت ہے، اور اس کی خاموشی تدبر کا مظہر۔دہشت گردی کے خاتمے کے لئے نیشنل ایکشن پلان صرف ایک سرکاری پالیسی نہیں، بلکہ پاکستان کے ہر شہری کا اجتماعی عہد ہے۔یہ پلان اُس فلسفے پر قائم ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ صرف گولی سے نہیں بلکہ تعلیم، انصاف، روزگار، گورننس، اور قومی یکجہتی سے ممکن ہے۔جب خیبر پختونخوا میں گورننس بہتر ہوگی، جب بلوچستان کے نوجوانوں کو مواقع میسر آئیں گے، جب قانون سب کے لیے برابر ہوگا، تب ہی وہ خواب حقیقت بنے گا جس میں امن ایک نعمت نہیں بلکہ ایک فطری حق بن جائے گا۔

یہ وقت تماشائی بننے کا نہیں، بلکہ تاریخ کے دھارے میں کردار ادا کرنے کا ہے۔ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا، فرقہ واریت اور سیاسی تقسیم کے زہر کو ترک کرنا ہوگا۔قوم کے ہر طبقے، ہر فرد اور ہر ادارے کو یہ عہد دہرانا ہوگا کہ یہ وطن ہمارا ہے، اس کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے، اور ہم اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔پاکستان کے دشمنوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ یہ قوم نہ ماضی میں جھکی ہے، نہ آج جھکے گی۔یہ قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے، جس کے پیچھے ایمان کی قوت اور قربانی کا عزم ہے۔افواجِ پاکستان کے بہادر سپوت اور عوام کے مخلص دل ایک ساتھ کھڑے ہیں ایک ہی مقصد کے لیےمامن، استحکام اور مادرِ وطن کی حفاظت۔

تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ وہ قومیں کبھی فنا نہیں ہوتیں جو اپنے شہداء کا خون ضائع نہیں جانے دیتیں۔
آج جب دشمن چاروں جانب سے نفسیاتی، فکری اور عسکری حملے کر رہا ہے، تو ہمیں ایک ایسی صف میں کھڑا ہونا ہوگا جہاں کوئی کمزور کڑی نہ ہو۔یہی قومی یکجہتی، یہی ایمان، یہی نیشنل ایکشن پلان پر خلوصِ نیت سے عمل ہماری کامیابی کی کنجی ہے۔یہ وطن ہمارا ہے، اور ہم اس کے محافظ ہیں۔ہم اپنی جانوں سے زیادہ اپنے پرچم کو عزیز رکھتے ہیں۔ہم اس سرزمین کے ہر ذرے کی حفاظت کے لیے تن، من، دھن قربان کرنے کو تیار ہیں۔ان شاءاللہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان کی فضاؤں میں امن کا پرچم پھر سے پوری آب و تاب کے ساتھ لہرا رہا ہوگا،اور شہداء کے خون سے سینچی گئی یہ دھرتی ہمیشہ کے لیے دہشت کے سائے سے آزاد ہو جائے گی۔

Shares: