امیر حمزہ بابا شینواری کی عالمی اور ملکی سیاست پر گہری نظر(امیر حمزہ بابا شینواری نےتحریکِ پاکستان میں بھی مکمل طور پر حصہ لیا)
تحریر:نصیب شاہ شنواری
لنڈی کوتل تحصیل کے مشہور اور ممتاز پشتو شاعر اور ادیب امیر حمزہ بابا شینواری کو "پشتو غزل کے بابا” کا لقب دیا گیا ہے اور لوگ انہیں پشتو زبان کے شاعر اور ادیب کے طور پر جانتے ہیں تو دوسری طرف وہ عالمی اور ملکی سیاست پر بھی گہری سوچ، فکر اور نظر رکھتے تھے۔
امیر حمزہ بابا کے اردو میں خطوط پر مشتمل کتاب "خطوطِ حمزہ بابا” کا میں نے مطالعہ کیا۔ اس کتاب میں تقریباً 304 خطوط شامل ہیں جو انہوں نے اردو زبان میں اپنے دوست سید انیس شاہ جیلانی کو لکھے تھے۔
ان خطوط میں سے ایک خط 1972 میں جون مہینے کی 26 تاریخ کو "مجذوب” (یہ نام حمزہ بابا نے انیس شاہ جیلانی کے لیے استعمال کیا) کوبھیجا گیا تھا۔ اس خط میں امیر حمزہ بابا نے اپنے دوست کے لیے کئی اہم باتیں لکھی ہیں خاص طور پر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کے حوالے سے ایک اہم موضوع پر بات کی ہے۔
امیر حمزہ بابا اپنے دوست کو لکھتے ہیں کہ "میں نے تحریکِ پاکستان میں مکمل طور پر حصہ لیا تھا لیکن پاکستان تو اسلام کے نام پر بنا تھا، مگر اس ملک میں وہی انگریزوں کے سپورٹرز اقتدار میں آ گئے۔”
حمزہ بابا مزید لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت کرے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ انہیں اس ملک کے کمزور ہونے پر شدید رنج و غم محسوس ہوتا ہے اور اگر پاکستان محفوظ نہ رہا تو افغانستان بھی بھارت کے پنجوں سے نہیں بچ سکے گا۔
اگر حمزہ بابا کی اس بات پر غور کیا جائے، تو یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ افغانستان کے لیے پاکستان کا وجود انتہائی اہم ہے کیونکہ یہ دو مسلمان ہمسایہ ممالک ہیں اور ان کے درمیان مضبوط سیاسی اور اقتصادی تعلقات ہونے چاہئیں۔
حمزہ بابا کے اس خط سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ وہ افغانستان اور پشتونوں سے محبت کرتے تھے اسی طرح وہ پاکستان سے بھی محبت کرتے تھے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے وہ خود کہتے ہیں کہ انہوں نے تحریکِ پاکستان میں مکمل طور پر حصہ لیا تھا۔
آج جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں 5 مارچ 2025 ہے اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم سرحد بند ہے، جس کی وجہ سے دونوں طرف عام عوام اور مسافر شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
سرحد کی بندش کے سبب پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تجارت بھی معطل ہے، جس سے دونوں ممالک کی معیشت کو بڑا نقصان پہنچ رہا ہے۔
طورخم میں کسٹم ڈپارٹمنٹ کے اہلکاروں نے میڈیا کو بتایا کہ طورخم سرحد کے ذریعے روزانہ تقریباً 3 ملین ڈالر کی دو طرفہ تجارت ہوتی ہے۔ اس حساب سے بارڈر کی بندش کے باعث پاکستان کو اب تک 36 ملین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے اور اگر سرحد مزید دنوں تک بند رہی، تو یہ نقصان مزید بڑھ جائے گا۔
پاکستانی حکام کے مطابق 21 فروری جمعہ کے دن افغان سیکیورٹی اہلکاروں نے ایک متنازعہ چیک پوسٹ پر تعمیراتی کام شروع کیا، جس کے باعث دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا اور فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ اس کے نتیجے میں سرحد کو آمد و رفت اور تجارتی سرگرمیوں کے لیے بند کر دیا گیا اور آج بارہواں دن بھی طورخم کراسنگ پوائنٹ بند ہے۔
اگر ہم حمزہ بابا کے پاکستان اور افغانستان کے وجود اور ان کے باہمی تعلقات پر کیے گئے تبصرے پر غور کریں تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔
اگر پاکستان مضبوط ہوگا تو یہ افغانستان کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا۔اسی طرح اگر افغانستان اقتصادی طور پر مستحکم ہوگا تو یہ پاکستان کی اقتصادی ترقی اور ملکی خوشحالی و امن کے لیے بھی بہتر ہوگا۔
موجودہ وقت میں جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان یہ تنازعہ جاری ہے، تو دونوں حکومتوں اور سیکیورٹی حکام کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔
اگر دونوں ممالک اس تنازعے کو حل نہ کر سکے اور آپس میں فائرنگ جاری رہی، تو خدا نہ کرے، یہ ایک بڑی جنگ میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔ اور اگر جنگ چھڑ گئی تو سب سے زیادہ نقصان افغانستان کو ہوگا کیونکہ افغانستان گذشتہ چار دہائیوں سے جنگوں کا شکار رہا ہے، جس نے اس کے سیاسی، اقتصادی اور عام شہریوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔