امریکا کے مختلف حصوں میں پراسرار ڈرونز کی اصل حقیقت کیا؟
امریکا کے مختلف حصوں میں پراسرار ڈرونز نے کئی سازشی نظریات کو جنم دیا ہےجبکہ ایف بی آئی اور امریکی حکومت نے ان ڈرون سائٹنگز کو خطرناک قرار دینے سے انکار کردیا ہے-
باغی ٹی وی: ڈیلی میل نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ حال ہی میں ڈرونز کے ایک گروپ کو برطانیہ میں قائم امریکی ایئر بیس پر پرواز کرتے دیکھا گیا، جہاں امریکی جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ شروع ہونا ہے ایک ویڈیو میں دکھایا گیا کہ چار چمکتے ڈرونز کو شمالی برطانیہ کے شہر سفوک میں شام کے وقت پرواز کرتے دیکھا گیا۔ ابھی تک ان پراسرار پروازوں کی حقیقت سے پردہ نہیں اٹھ سکا جس کی وجہ سے عوام میں خوف ہ ہراس پایا جاتا ہےاُسی ویڈیو میں بائیں جانب دو ڈرون ایک ہی جگہ پر ٹھہرے دیکھے گئے، جبکہ باقی دو ڈرونز 28 نومبر کی رات کو مختلف سمت میں اڑتے دکھائی دیئے-
ہمارے نظام شمسی کے روشن ترین سیارے کو اکثر طیارہ یا راکٹ سمجھ لیا جاتا ہے امریکی فضائیہ نے گزشتہ ماہ ایک بیان میں کہا تھا کہ ڈرونز نے برطانیہ میں اس کے تین اڈوں پر پرواز کی تھی جن میں آر اے ایف ملڈن ہال، آر اے ایف لیکن ہیتھ اور آر اے ایف فیلٹ ویل شامل تھے۔
رائل ایئرفورس ملڈن ہال امریکی فضائیہ کا ری فیولنگ کا بنیادی طورپر 100 واں بیس ہے جبکہ رائل ایئرفورس لیکن ہیتھ امریکی فضائیہ کے F-35A اور F-15E کے اڈے ہیں رائل ایئرفورس فیلٹ ویل میں لاجسٹکس کی سہولتیں ہیں جبکہ فضائیہ کے افسران کی رہائش بھی اسی جگہ موجود ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ20 نومبر سے کئی روز تک ڈرون فضائی اڈوں کے اوپر گھومتے دکھائی دئیے یہ نیو جرسی میں ہونے والے دیگر ڈرون نظاروں سے ملتے جلتے ہیں امریکی ریاست نیو جرسی میں Picatinny Arsenal کے ارد گرد پراسرار اشیاء کو اڑتے دیکھا گیا، یہ وہ جگہ ہے جہاں امریکی فوج ہتھیار بناتی اور جانچتی ہے، جن میں سے کچھ اسلحہ یوکرین کو بھی بھیجا جاتا ہے،پراسرار ڈرونز کے یہ نظارے سب سے پہلے نومبر میں مورس کاؤنٹی، نیو جرسی کے قریب شروع ہوئے تھے لیکن اس کے بعد دیگر ریاستوں کے علاوہ میساچوسٹس، ورجینیا، پنسلوانیا اور نیویارک تک پھیل چکے ہیں۔
چند میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ نومبر کے وسط سے نیو جرسی میں دکھائی دینے والے خلائی جہازوں کا حجم گاڑیوں کے سائز جتنا تھا، بعض اوقات انہیں ایک گروپ کی شکل میں ظاہر ہوتے دیکھا گیا تو کچھ گھنٹوں تک ایک ہی جگہ پر رکے دکھائی دئیے نیویارک، ٹیکساس اور اوکلاہوما میں بھی اسی طرح کے مناظر دیکھنے کی کی اطلاع ملی ہے۔
امریکی فضائیہ کے ترجمان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ مسلسل ڈرون پروازیں دیکھی جارہی ہیں جو ہماری تنصیبات کے لیے خطرہ ہو سکتی ہیں۔
تاہم اب فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) اور امریکی حکومت نے ان ڈرون سائٹنگز کو خطرناک قرار دینے سے انکار کردیا ہے، امریکی حکومت نے کہا کہ پراسرار اشیاء ”انسان بردار طیارے“ تھے جو قانونی طور پر چلائے جا رہے تھے۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے کمیونیکیشن ایڈوائزر جان کربی نے کہا، ’دستیاب تصویروں کا جائزہ لینے پر، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سے اطلاع دیئے گئے ہوائی جہاز درحقیقت انسان بردار طیارے ہیں جو قانونی طور پر چلائے جا رہے ہیں، محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی اور ایف بی آئی نے مزید کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ نظارہ قومی سلامتی یا عوامی حفاظت کو خطرہ لاحق ہے۔
جبکہ نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اس مسئلے پر یہ مشورہ دیا کہ پراسرار ڈرون کو فوری طور پر مار گرایا جائے، ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’پورے ملک میں پراسرار ڈرون کا نظارہ، کیا یہ واقعی ہماری حکومت کے علم کے بغیر ہو سکتا ہے؟ مجھے ایسا نہیں لگتا‘،’عوام کو ابھی بتائیں، بصورت دیگر، انہیں گولی مار کر تباہ کریں‘۔
دوسری جانب سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ان پراسرار پروزاوں کو ”پروجیکٹ بلیو بیم“ نامی دہائیوں پرانی سازشی تھیوری سے جوڑا جا رہا ہے۔
1990 کی دہائی میں کینیڈا کے صحافی سرج موناسٹ نے ”پروجیکٹ بلیو بیم“ کے بارے میں بات کی، ان کا کہنا تھا کہ عالمی اشرافیہ ایک مطلق العنان عالمی حکومت قائم کرنے کیلئے ایک خفیہ آپریشن میں جعلی مافوق الفطرت واقعات یا خلائی مخلوق حملوں کا منصوبہ بنا رہے ہیں، جو لوگ اس سازش پر یقین رکھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ جدید ہولوگرافک ٹیکنالوجی کا استعمال مذہبی شخصیات کی تصاویر یا آسمان پر ماورائے ارضی حملوں کے لیے کیا جائے گا۔
اس سازشی نظریے میں یہ بھی شامل ہے کہ اس پوری مشق کا مقصد انسانی خیالات کو جوڑنا ہے جو آمرانہ کنٹرول کا جواز پیش کرنے کیلئے دیوتاؤں کے ساتھ براہ راست رابطے کا بھرم پیدا کرتا ہے